امریکی امدادی سرگرمیوں کی آڑ میں فلسطینیوں کا قتل عام
10 Jun 2024 23:59
اسلام ٹائمز: النصیرات مہاجر کیمپ پر حالیہ حملے میں اس مصنوعی بندرگاہ نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا ہے جسے امریکی حکمرانوں نے غزہ میں فلسطینیوں تک انسانی امداد کی فراہمی کے بہانے تعمیر کیا تھا۔ کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ صیہونی فوجیوں نے النصیرات کیمپ میں گھسنے کیلئے انسانی امداد منتقل کرنے والے ٹریلوں کا استعمال کیا اور امریکی ساختہ مصنوعی بندرگاہ سے انسانی امداد پر مشتمل کاروان کی صورت میں غزہ میں داخل ہوئے تھے۔ اس بارے میں شائع ہونے والی تصاویر سے بھی اس خبر کی تصدیق ہوتی ہے۔ یاد رہے جب امریکہ غزہ کے ساحل کے قریب یہ مصنوعی بندرگاہ تعمیر کر رہا تھا تو فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس نے اسی وقت اعلان کر دیا تھا کہ اس بندرگاہ کے اہداف فوجی ہیں اور اس کی تعمیر کا مقصد فلسطینیوں کو انسانی امداد فراہم کرنا نہیں بلکہ غزہ جنگ میں تل ابیب کی مدد کرنا ہے۔
تحریر: علی احمدی
حال ہی میں غاصب صیہونی رژیم نے امریکہ اور برطانیہ کی فوجی اور انٹیلی جنس مدد کے ذریعے غزہ میں واقع النصیرات مہاجر کیمپ پر کریک ڈاون کیا اور چار اسرائیلی یرغمالیوں کو آزاد کروا لیا ہے۔ ایسے ٹھوس شواہد پائے جاتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کے خفیہ اداروں نے اس کاروائی میں اسرائیل سے تعاون کیا ہے۔ غاصب صیہونی رژیم نے نہ صرف النصیرات مہاجر کیمپ پر حملے کیلئے امریکی ساختہ مصنوعی بندرگاہ کا استعمال کیا ہے بلکہ صیہونی کمانڈرز نے امریکی امدادی کارکنوں کا روپ دھار کر یہ کاروائی انجام دی ہے۔ دوسری طرف صیہونی ذرائع نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ باقی یرغمالیوں کی آزادی میں یہ کاروائی مددگار ثابت نہیں ہو سکتی۔ غاصب صیہونی رژیم نے اپنے حامی ممالک سے مل کر النصیرات مہاجر کیمپ میں خون کی ہولی کھیلی ہے۔
چار یرغمالیوں کو آزاد کروانے کیلئے انجام پانے والی اس کاروائی میں سینکڑوں بے گناہ فلسطینی شہریوں کا قتل عام کر دیا گیا۔ النصیرات مہاجر کیمپ غزہ کے مرکز میں واقع ہے۔ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اس مجرمانہ اقدام پر پردہ ڈالنے کیلئے اسے ایک "پیچیدہ فوجی آپریشن" قرار دیا اور یوں صیہونی رژیم کی فوجی طاقت کو بھی اعلی درجے کا ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اس قتل عام میں امریکہ کا انٹیلی جنس تعاون منظرعام پر آ جانے کے بعد نیتن یاہو کے اظہار خیال پر سوال اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔ ایک امریکی حکومتی عہدیدار نے اخبار نیویارک ٹائمز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ امریکی سکیورٹی افسران کی ایک ٹیم نے النصیرات مہاجر کیمپ پر کاروائی میں اسرائیل کو انٹیلی جنس اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کی ہے۔
اس امریکی عہدیدار نے مزید بتایا کہ غزہ جنگ کے آغاز سے ہی امریکہ اور برطانیہ کی انٹیلی جنس ٹیمیں اسرائیل میں موجود ہیں جو تل ابیب کو یرغمالیوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے اور ان معلومات کا تجزیہ و تحلیل کرنے میں مدد کر رہی ہیں۔ آگاہ ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ نے فضا سے بھی اور انٹرنیٹ سے بھی وسیع پیمانے پر معلومات حاصل کر کے اسرائیل کو فراہم کی تھیں اور اسرائیل خود یہ معلومات حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کی انٹیلی جنس مدد کرنے میں مصروف ہیں اور انہوں نے اپنی پوری توجہ اسرائیلی یرغمالیوں کو چھپانے والی جگہوں اور حماس کے ہیڈکوارٹرز پر مرکوز کر رکھی ہے کیونکہ ان کی نظر میں اسرائیل کو جنگ بندی پر راضی کرنے کا بہترین راستہ اسرائیلی یرغمالیوں کی آزادی ہے۔
النصیرات مہاجر کیمپ پر حالیہ حملے میں اس مصنوعی بندرگاہ نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا ہے جسے امریکی حکمرانوں نے غزہ میں فلسطینیوں تک انسانی امداد کی فراہمی کے بہانے تعمیر کیا تھا۔ کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ صیہونی فوجیوں نے النصیرات کیمپ میں گھسنے کیلئے انسانی امداد منتقل کرنے والے ٹریلوں کا استعمال کیا اور امریکی ساختہ مصنوعی بندرگاہ سے انسانی امداد پر مشتمل کاروان کی صورت میں غزہ میں داخل ہوئے تھے۔ اس بارے میں شائع ہونے والی تصاویر سے بھی اس خبر کی تصدیق ہوتی ہے۔ یاد رہے جب امریکہ غزہ کے ساحل کے قریب یہ مصنوعی بندرگاہ تعمیر کر رہا تھا تو فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس نے اسی وقت اعلان کر دیا تھا کہ اس بندرگاہ کے اہداف فوجی ہیں اور اس کی تعمیر کا مقصد فلسطینیوں کو انسانی امداد فراہم کرنا نہیں بلکہ غزہ جنگ میں تل ابیب کی مدد کرنا ہے۔
صیہونی اخبار یدیعوت آحارنوٹ اس بارے میں لکھتا ہے کہ النصیرات مہاجر کیمپ میں فوجی آپریشن سے زمینی حقائق میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ صیہونی ریڈیو اور ٹی وی ادارے نے بھی اس بارے میں لکھا: "فوجی اور سکیورٹی سربراہان، قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر النصیرات فوجی آپریشن کے اثرات کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں اور ان مذاکرات میں شریک حکام کا کہنا ہے کہ جب تک معاہدہ نہیں ہوتا مذاکرات جاری رہنے چاہئیں۔ آخرکار یرغمالیوں کی اکثریت صرف حماس سے معاہدے کے بعد ہی آزاد ہو گی۔ مستقبل قریب میں مذاکرات کی بحالی کا امکان بہت کم ہے۔" دوسری طرف اسلامک جہاد فلسطین کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل محمد الہندی نے کہا ہے کہ النصیرات مہاجر کیمپ پر اسرائیلی حملہ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر اثرانداز نہیں ہو گا کیونکہ اسلامی مزاحمت اپنی شرائط سے پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں ہے۔
یورپی یونین کے خارجہ امور کے سیکرٹری جوزف بوریل نے النصیرات مہاجر کیمپ پر اسرائیلی جارحیت کے بارے میں اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا ہے: "غزہ سے عام شہریوں کے قتل عام پر مبنی رپورٹس بہت وحشتناک ہیں۔ ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ خون کی ہولی فوراً بند ہونی چاہئے۔" انسانی امور میں اقوام متحدی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مارٹن گرفتھس نے لکھا ہے: "النصیرات میں اسرائیلی فوجی کاروائی کے بعد قتل عام اور نابودی کے مناظر سے ظاہر ہوتا ہے کہ روز بروز غزہ جنگ کی صورتحال مزید وحشتناک ہوتی جا رہی ہے۔" انہوں نے مزید لکھا: "زمین پر پڑی لاشیں دیکھ کر ہمیں یہ بات یاد آتی ہے کہ غزہ میں کوئی محفوظ جگہ باقی نہیں رہی۔" مصر کی الازہر یونیورسٹی نے بھی اپنے بیان میں النصیرات مہاجر کیمپ کے قتل عام کو وحشتناک قرار دیا اور عالمی برادری سے کہا کہ وہ سب ملک کر صیہونی حکمرانوں کی مذمت کریں۔
خبر کا کوڈ: 1140956