QR CodeQR Code

امام خمینی، سیاسی اخلاق کا عملی نمونہ

3 Jun 2024 09:16

اسلام ٹائمز: امام خمینی کے نظریہ کا خلاصہ اور انکے افکار کا لب لباب اخلاق اور سیاست کی یگانگی اور وحدت ہے اور یہ بات اس قدر واضح ہے کہ جس کیلئے کسی استدلال کی ضرورت نہیں۔ اب جبکہ اخلاق اور سیاست ایک دوسرے میں مدغم ہوچکے ہیں تو پھر جھوٹ، ظلم و ستم، بے عدالتی، حق تلفی وغیرہ فردی سطح پر بھی بری ہے اور اجتماعی سطح پر بھی۔ اسلامی حکمران کو ہمیشہ اخلاقی اصولوں کی پابندی کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے اور انکی حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیئے۔ یہ کام اگرچہ مشکل ہے لیکن محال نہیں۔ اسلامی نظام کے حقیقی مقاصد و مصالح کی حفاظت اور طولانی مدت تک سیاسی اقتدار کا تحفظ فقط اخلاقی اصولوں کی پابندی اور ہر قسم کے دھوکہ و فریب سے دوری اختیار کرنے میں مضمر ہے۔ اس اصول اور قاعدے کو کوئی بھی مسلمان حکمران نظرانداز نہیں کرسکتا۔


تحریر: سید رمیزالحسن موسوی

امام خمینی رحمة اللہ علیہ کی وفات کو پینتیس سال ہوچکے ہیں اور آج دنیا بھر میں امام خمینی کی 35ویں برسی منائی جا رہی ہے۔ امام خمینی نے دین و سیاست کا ایک ایسا امتزاج پیش کیا ہے اور اس میں عملی حصہ لیکر پوری دنیا پر اسلامی سیاست کا وہ عملی نمونہ پیش کیا ہے کہ جس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔امام خمینی نے اُن لوگوں کا یہ نظریہ بھی غلط ثابت کیا ہے کہ دین و سیاست دو جدا مفہوم ہیں اور اُن لوگوں کے نظریہ کو بھی باطل قرار دیا ہے کہ جن کے نزدیک سیاست ایک گندا کھیل ہے، جس میں علماء کو داخل نہیں ہونا چاہیئے۔ امام خمینی کی پنتیسویں برسی کی مناسبت سے ہم پاکستان جیسے معاشرے کے سامنے امام خمینی کے اخلاقی سیاست کے نظریئے کی ایک جھلک پیش کرنا چاہتے ہیں کہ جس معاشرے میں سیاسی اخلاق باختگی اپنے عروج پر ہے اور سیاست و اخلاق کے باہمی تعلق کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جس معاشرے میں علماء بھی گندی سیاست اور غیر اخلاقی سیاست پر یقین رکھتے ہیں اور اس میں عملی طور پر شریک ہیں، لیکن امام خمینی کا اخلاقی سیاست کا نظریہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستانی سیاست کا یہ مظاہرہ سراسر غلط ہے اور ہمارے سیاستدانوں کے سیاسی طور پر نااہل ہونے نے سیاست کو گندگی سے آلودہ کر دیا ہے۔

درحقیقت ہمارے سیاستدان کوڈے (Coady) کے اس نظریئے کہ پیروی کر رہے ہیں کہ جس کے مطابق سیاست ایک آلودگی ہے۔ وہ ’’سیاست اور آلودہ ہاتھ‘‘ (Politics and the problem of dirty hands) کے عنوان سے ایک مقالے میں اس تلخ حقیقت کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ سیاست، پرہیزگاری اور پاکیزگی اختیار کرنے کے ساتھ سازگار نہیں۔ لہذا جو بھی سیاست کے میدان میں داخل ہونا چاہتا ہے، اسے بدنامی، پستی، بدکرداری اور ہر قسم کی آلودگی کے خطرات کو قبول کرنا چاہیئے، کیونکہ سیاست اور انسانی حالات کا یہی تقاضا ہے اور '' اگر یہ (سیاست) ہاتھ آلودہ کرنے کے معنی میں ہے تو یہ فقط انسانی حالات کی وجہ سے ہے'' اور اس سے فرار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لیکن امام خمینی اس مسئلہ کو کسی اور نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کا اعتقاد یہ ہے کہ سیاست، اخلاقی بھی ہوسکتی ہے اور اسے اخلاقی ہونا بھی چاہیئے، کیونکہ سیاست معاشرے کے وسیع شعبہ ہائے حیات میں اخلاقی وسعتوں کے پھیلاؤ اور دینی مقاصد و آرزؤں کی عملی شکل کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ لہذا امام خمینی   کے نزدیک سیاست اور اخلاق ایک ہی چیز ہے۔

امام خمینی ایک ایسے زمانے میں زندگی گزار رہے تھے کہ جب اغیار کے وسیع پروپیگنڈے اور اپنوں کے غلط اعمال کے نتیجے میں اذہان میں اسلام اور اس کی کارکردگی کے بارے میں بہت سے اہم شکوک و شبہات پیدا ہوچکے تھے۔ انہی شبہات میں سے ایک، اسلام اور سیاست کے تعلّق اور سیاست کے سلسلے میں علماء کی ذمہ داری کا مسئلہ ہے۔ ان شکوک و شبہات کے نتیجے میں، دین اور سیاست کی جدائی کا نظریہ غالب ہو رہا تھا کہ جس کے امام خمینی بہت شدید مخالف تھے اور اسے استعماری سازش قرار دیتے تھے۔ وہ ہر جگہ سیاست میں اسلام کے کردار اور اسلام و سیاست کے ایک دوسرے سے جدا نہ ہونے کی بات کرتے تھے اور سیاست میں دخالت ہر مسلمان کا فریضہ جانتے تھے۔ انہوں نے شاہی حکومت کی انٹیلی جنس کے سربراہ ''پاکروان'' کا قصہ کئی دفعہ بیان کیا تھا کہ جس میں اس نے سیاست کی حقیقت بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ علماء کو اس ''بدمعاشی'' سے بچنا چاہیئے۔١

امام خمینی فرماتے تھے کہ یہ انہی استعماری منصوبوں کا نتیجہ ہے کہ افسوس کے ساتھ جس پر ہمارے بہت سے دینداروں کا بھی اعتقاد ہے۔ حتی کہ ہماری دینی ثقافت میں ''سیاسی مُلا'' ایک طنز اور گالی کی حیثیت اختیار کرچکا تھا۔ ''جب کسی مولانا کا عیب بیان کرنا مقصود ہوتا تو کہا جاتا: فلاں سیاسی ملا ہے۔'' حالانکہ اگر اسلام کے اجتماعی احکام کو نکال دیا جائے تو اس دین مبین میں سے سوائے بے روح جسد کے اور کچھ باقی نہیں رہتا۔ اسلام کا ایک بڑا حصہ، اجتماعیات پر مشتمل ہے اور اس کا اجراء کرنا بھی اقتدار اور حاکمیت کے ساتھ تعلّق رکھتا ہے۔ لہذا اسلام کو ہم ایک فردی دین اور لوگوں کی خصوصی زندگی سے مخصوص مذہب نہیں قرار دے سکتے۔ دین کو سیاست سے جدا کرنے کی بات یا تو اصل دین کے بارے میں کج فہمی کا نتیجہ ہے یا بدخواہوں کے پروپیگنڈے کا اثر ہے۔

اگر انسان ایک اجتماعی اور سیاسی مخلوق ہے اور اگر ہم دین اسلام کی جامعیت کے بھی قائل ہوں کہ جو انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں پر مشتمل ہے تو ان سب باتوں کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ دین ہرگز سیاست سے جدا نہیں ہوسکتا۔ پس سیاست سے دین کی جدائی کی بحث ایک مشکوک بحث ہے: ''اس بات کو استعمار نے پھیلایا ہے کہ دیانت کو سیاست سے جدا ہونا چاہیئے اور علمائے اسلام کو اجتماعی و سیاسی امور میں دخالت نہیں کرنی چاہیئے۔ یہ سب بے دین افراد کا پروپیگنڈا ہے۔ کیا زمانۂ پیغمبر ۖ میں سیاست دین سے جدا تھی؟ کیا اس زمانے میں بھی ایک گروہ علماء کا تھا اور دوسرا سیاستدانوں اور حکمرانوں کا؟ کیا خلفائے حق یا ناحق اور حضرت امیر کے زمانہ خلافت میں سیاست دیانت سے جدا تھی؟ آیا اس وقت دو نظام تھے؟ یہ سب باتیں استعمار اور ان کے کارندوں نے پھیلائی ہیں، تاکہ دین کو دنیوی امور اور مسلمانوں کے معاشرتی مسائل سے دور رکھ سکیں''۔١

امام خمینی کے نزدیک ''اسلام ایک ایسا مکتب ہے کہ جو غیر توحیدی مکاتب کے برعکس تمام فردی و اجتماعی، مادی و معنوی، ثقافتی و سیاسی اور فوجی و اقتصادی مسائل میں دخالت اور نظارت رکھتا ہے اور اس (دین) میں کسی ایسے چھوٹے چھوٹے نکتے کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا، جو انسان اور معاشرے کی تربیت اور مادی و معنوی ترقی میں کردار ادا کرسکتا ہو''۔٢  پس جو شخص ان دونوں میں جدائی کی بات کرتا ہے، وہ درحقیقت نہ دین کی حقیقت سے آگاہ ہے اور نہ ہی سیاست کے مفہوم کو جانتا ہے۔ ''ہمیں سیاست سے کیا مطلب'' کا معنی یہ ہے کہ اسلام کو بالکل فراموش کردینا چاہیئے، اسلام کو چھوڑ دینا چاہیئے اور اسلام کو (مدارس) کے حجروں میں دفن کر دینا چاہیئے۔ یہ ہماری کتابیں دفن ہو جانی چاہئیں۔''

امام خمینی کے نزدیک ''اسلام کی اساس ہی سیاست ہے'' اور ''رسول ﷲ  ۖنے سیاست کی بنیاد دیانت پر رکھی ہے۔'' صدر اسلام اور زمانہ پیغمبر ۖ سے لے کر جب تک انحراف پیدا نہیں ہوا تھا، سیاست اور دیانت ایک ساتھ تھے۔'' امام خمینی کی یہ باتیں بارہا تکرار ہوئی ہیں، خصوصاً اس مفہوم اور تعریف کے ساتھ کہ جس کے وہ سیاست کے بارے میں قائل تھے اور اس کے مطابق، یہ باتیں قابل فہم بھی ہیں اور قابل قبول بھی۔ جیسا کہ پہلے بھی گزر چکا ہے کہ امام خمینی کے نزدیک ''سیاست، معاشرے کی ہدایت و راہنمائی کرنے اور معاشرے کی مصلحت کو اور انسانوں اور معاشرے کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھنے کا نام ہے۔ ان کی اس چیز کی طرف راہنمائی کرنے کا نام سیاست ہے کہ جس میں ان لوگوں اور قوم وملت کی مصلحت ہے اور یہی چیز انبیاء سے مخصوص ہے۔''

اس نظریہ کے مطابق اسلام کے تمام احکام و قوانین سیاسی جلوۂ لئے ہوئے ہیں، ''دین اسلام، ایک سیاسی دین ہے۔ ایک ایسا دین ہے کہ جس کا سب کچھ سیاسی ہے، حتی اس کی عبادت بھی سیاسی ہے۔'' حتی اس نگاہ سے دیکھیں تو ''اسلام کے اخلاقی احکام بھی سیاسی ہیں۔'' امام خمینی کی نظر میں اگر انسان کو کھلا چھوڑ دیا جائے تو وہ شہوات کا قیدی اور مادی ضروریات کا اسیر بن جائے گا اور پھر اس کی معنوی تربیت اور پرورش کسی بھی تربیتی اور سیاسی مکتب میں نہیں ہوسکے گی، جبکہ ہر چیز کی بنیاد معنویت اور روحانیت ہے اور انسان کے اس پہلو کی اصلاح اور پرورش سے اس کی تمام دوسری مشکلات حل ہو جاتی ہیں۔ امام خمینی کی نظر میں، موجودہ دنیا کی سب سے بڑی مشکل اخلاقی مشکل ہے۔ اگر یہ مشکل حل نہ ہوسکی تو دنیا پستیوں کی طرف گرنا شروع ہو جائے گی۔'' دنیا کو جس چیز سے خطرہ ہے، وہ اسلحہ، سنگینیں اور میزائل وغیرہ نہیں ہیں، بلکہ وہ چیز ہے کہ جو ان ممالک اور انسانوں کو زوال و ہلاکت کی طرف لے جا رہی ہے اور یہ زوال و انحطاط ہے، جو ان ممالک کے سربراہوں اور ان حکومتوں کے کارندوں کے اخلاقی انحطاط کی وجہ سے پیدا ہو رہا ہے۔''

امام خمینی کی نظر میں ''اسلام، مادی مکتب نہیں، بلکہ ایک مادی اور معنوی مکتب ہے۔۔۔۔ اسلام انسان کی تہذیب و تربیت کیلئے آیا ہے اور اسلام اور تمام انبیاء کا مقصد انسانوں کی تربیت کرنا ہے''۔٢ پس اس بنا پر ہر سیاسی عمل کا سرچشمہ، اخلاق ہونا چاہیئے، لہذا معنویت و روحانیت کی طرف توجہ ضروری ہے، چونکہ ''یہی معنویات ہر چیز کی بنیاد ہیں۔'' درحقیقت سیاست بغیر اخلاق کے لوگوں کی ہدایت و راہنمائی کرنے اور ان کی حقیقی ضروریات کو پورا کرنے سے عاجز ہے۔'' بالفرض ایک ایسا شخص پیدا ہو بھی جائے کہ جو صحیح سیاست کو اجرا کرے۔۔۔ (لیکن) یہ سیاست، سیاست انبیاء کا ہی ایک پہلو ہے۔ اولیاء کی سیاست بھی تھی اور اب علمائے اسلام کی بھی سیاست ہے۔ انسان کا فقط ایک پہلو نہیں ہے، اسی طرح معاشرے بھی یک بعدی نہیں ہیں۔ انسان فقط ایک حیوان نہیں ہے کہ کھانا پینا اور پہننا اس کا تمام ہم و غم ہو۔ شیطانی سیاست ہو یا صحیح سیاست، وہ امت کے فقط ایک پہلو کی ہدایت کرتی ہے اور وہ اس کا حیوانی پہلو اور مادی بعد ہے اور اس قسم کی سیاست، اسلام میں انبیاء و اولیاء کیلئے ثابت ہونے والی سیاست کا ایک ناقص سا جزو ہے۔ وہ اقوام و ملل اور فرد و معاشرے کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ معاشرے اور انسان کیلئے جتنی بھی مصلحتوں کا تصور کیا جاسکتا ہے، وہ ان کی طرف راہنمائی کرنا چاہتے ہیں۔''

یہ امام خمینی کے اخلاقی و سیاسی نظریئے کا مرکزی نکتہ ہے، لہذا ہمارا سروکار دو علوم اور دو مستقل نظریوں سے نہیں ہے۔ سیاست اخلاق کا تسلسل ہے اور اخلاق، سیاست کی بنیاد۔ گذشتہ ابحاث میں غور و فکر سے یہ نکتہ بخوبی روشن ہو جاتا ہے۔ اسلام کا مقصد انسان کے مادی اور معنوی پہلوؤں کی پرورش و تربیت کرنا ہے، لہذا ان دونوں پہلوؤں کو ایک ہی سمت اور ایک ساتھ حرکت کرنی چاہیئے۔ جس کیلئے اسلام نے انسان کیلئے کچھ احکام اور قوانین وضع کئے ہیں۔ ان احکام میں سے کچھ تو فردی حیثیت رکھتے ہیں اور کچھ اجتماعی مقاصد لئے ہوئے ہیں، بعض تربیتی پہلو کے حامل ہیں اور بعض سیاسی حیثیت کے۔ لیکن سب کا مقصد ایک ہی ہے۔ لہذا ان احکام میں چند خصوصیات ہونی چاہئیں: اول یہ کہ ان کو انسان کے تمام وجودی پہلوؤں پر مشتمل ہونا چاہیئے۔ دوم یہ کہ یہ اپنے اپنے میدان میں جامعیت کے حامل ہونے چاہئیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تضاد بھی نہ رکھتے ہوں، بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہوں۔ درحقیقت تمام اسلامی احکام ایسی ہی خصوصیات کے حامل ہیں۔

امام خمینی کی نظر میں ''اسلام میں انسان کی پوری زندگی کیلئے یعنی جس دن وہ متولد ہوتا ہے، اس سے لے کر قبر میں داخل ہونے تک کے احکام اور دستورات موجود ہیں''۔١ اسی طرح ان احکام میں جامعیت اور انسجام بھی موجود ہے۔ بقول امام خمینی: ''اس انسان کیلئے کہ جو ہر چیز کا مجموعہ ہے، یعنی جو عالم طبیعت سے لے کر ماورائے طبیعت اور عالم الٰہیات تک کے مراتب کا حامل ہے، اسلام کے پاس نظریہ اور لائحہ عمل موجود ہے''۔٢  لہذا تمام اسلامی احکام پیکر واحد کی حیثیت رکھتے ہیں۔'' اسلام کی دیانت فقط عبادی دیانت ہی نہیں۔۔۔۔ اسی طرح وہ صرف ایک سیاسی مذہب ہی نہیں، بلکہ عبادی بھی ہے اور سیاسی بھی۔ اس کی سیاست، عبادات میں مدغم ہے اور اس کی عبادت، سیاسیات کے ساتھ ملی ہوئی ہے، یعنی وہی عبادی پہلو سیاسی پہلو بھی ہے۔''

امام خمینی صراحت کے ساتھ اخلاق اور دینی سیاست کو ایک ہی چیز شمار کرتے ہیں اور ان دونوں کی وحدت کے نظریہ پر تاکید کرتے ہوئے کہتے ہیں: ''اسلام کے اخلاقی احکام بھی سیاسی ہیں۔ یہی حکم کہ جو قرآن میں ہے، جس کے مطابق مؤمنین آپس میں بھائی بھائی ہیں، ایک اخلاقی حکم ہے (لیکن ساتھ ہی) ایک اجتماعی و سیاسی حکم بھی ہے۔ مؤمنین اور اسلام کے دوسرے مختلف گروہ کہ جو خدا اور پیغمبر اسلام  ۖ پر ایمان رکھتے ہیں، اگر باہم برادر بن جائیں تو جس طرح ایک بھائی، بھائی پر محبت کی نگاہ ڈالتا ہے، سب گروہ ایک دوسرے پر محبت کی نگاہ ڈالیں، تو یہ بات ایک عظیم اسلامی اخلاق کے علاوہ اور عظیم اخلاقی ثمرات رکھنے کے علاوہ، ایک عظیم اجتماعی حکم بھی ہے، جس کے عظیم اجتماعی اثرات ہیں۔

بہرحال، امام خمینی کے نظریہ کا خلاصہ اور ان کے افکار کا لب لباب اخلاق اور سیاست کی یگانگی اور وحدت ہے اور یہ بات اس قدر واضح ہے کہ جس کیلئے کسی استدلال کی ضرورت نہیں۔ اب جبکہ اخلاق اور سیاست ایک دوسرے میں مدغم ہوچکے ہیں تو پھر جھوٹ، ظلم و ستم، بے عدالتی، حق تلفی وغیرہ فردی سطح پر بھی بری ہے اور اجتماعی سطح پر بھی۔ اسلامی حکمران کو ہمیشہ اخلاقی اصولوں کی پابندی کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے اور ان کی حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیئے۔ یہ کام اگرچہ مشکل ہے لیکن محال نہیں۔ اسلامی نظام کے حقیقی مقاصد و مصالح کی حفاظت اور طولانی مدت تک سیاسی اقتدار کا تحفظ فقط اخلاقی اصولوں کی پابندی اور ہر قسم کے دھوکہ و فریب سے دوری اختیار کرنے میں مضمر ہے۔ اس اصول اور قاعدے کو کوئی بھی مسلمان حکمران نظرانداز نہیں کرسکتا۔

سیاسی اقتدار کی حفاظت اور اخلاق کے بارے میں تاکید پر مبنی امام خمینی کا یہ قول ہمیشہ ہمارا نصب العین ہونا چاہیئے کہ جس میں انہوں نے فرمایا: ''آپ اپنے اسلامی کردار اور رفتار کے ساتھ اس تحریک کی حفاظت کریں اور اسے آگے بڑھائیں اور اس بات کی طرف متوجہ رہیں کہ خداوند متعال ہی ہماری تائید فرماتا ہے۔ لہذا ہمیں چاہیئے کہ اپنے اسلامی اخلاق و رفتار کے ذریعے اس اقتدار کی حفاظت کریں کہ جس نے ہمیں فتح و نصرت تک پہنچایا ہے۔'' پس نتیجہ یہ کہ نہ صرف ہمیں سیاست کو اخلاقی بنانا چاہیئے، بلکہ اخلاقی معیار کے مطابق سیاست کرنی چاہیئے، کیونکہ اسلامی تعلیمات کی بنیاد اور حقیقت یہی ہے اور تاریخ بھی اس نظریئے کے فروغ اور سربلندی کی گواہ ہے۔ اگر کہیں اس نظریہ نے شکست کھائی بھی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ نظریہ ہمیشہ شکست کھاتا رہے گا اور ناقابل عمل ہے۔ آج اکثر سیاسی مفکرین کو اس حقیقت کا ادراک حاصل ہوگیا ہے کہ فقط اخلاقی سیاست کے ذریعے ہی باقی رہنا ممکن ہے اور امام خمینی نے یہ نظریہ عملی طور پر ثابت کر دکھایا ہے اور عملی سیاست میں اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاست کی یاد تازہ کر دی ہے۔


خبر کا کوڈ: 1139399

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1139399/امام-خمینی-سیاسی-اخلاق-کا-عملی-نمونہ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com