QR CodeQR Code

دہشتگردی کیخلاف ایک اور ’’جنگ‘‘ شروع ہو رہی ہے؟

1 Jun 2024 13:47

صحافی : تصور حسین شہزاد

اسلام ٹائمز: اگر طالبان حکومت چاہتی ہے کہ دنیا ان کیساتھ سفارتی تعلقات قائم کرے تو اسے پاکستان کیساتھ تعاون کرنا ہوگا، کسی کے ہاتھوں میں کھیلنے کی بجائے طالبان حکومت علاقے کی ترقی اور امن کا سوچے، اسی میں سب کی بھلائی ہے اور اگر طالبان حکومت پاکستان کیساتھ تعاون نہیں کرتی تو مستقبل میں ایک نئی جنگ کا امکان دکھائی دے رہا ہے۔


تحریر: تصور حسین شہزاد

امریکہ کو ایک بار پھر پاکستان کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ امریکی حکومت نے ایک اسٹڈی کروائی ہے، جس میں مشرق وسطیٰ اور بالخصوص پاکستان کے حالات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اسٹڈی گروپ نے لورل ملر کی سربراہی میں ریسرچ کی۔ ان کے ہمراہ لیفٹیننٹ جنرل مائیکل ناکاٹا شریک سربراہ تھے، پاکستان میں امریکہ کی سابق سفیر این پیٹرسن، افغانستان میں امریکہ کے سابق سفیر مائیکل میک کینلے اور دیگر مختلف دفاعی و پالیسی ساز اداروں کے افراد شامل تھے۔ اس سٹڈی گروپ نے باہمی افہام و تفہیم اور تجزیہ و تحلیل کے بعد امریکی حکومت کو تجویز دی ہے کہ وہ افغان جنگ کے دوران پیش آنیوالے واقعات کے اثر سے اب باہر نکل آئے، کیونکہ ان حالات میں رہنے سے امریکہ کو سوائے صدماتی کیفیت کے اور کچھ نہیں ملے گا۔

گروپ نے تجویز دی ہے کہ اس صدمے کی وجہ سے امریکہ پاکستان اور افغانستان کے معاملات کو اس طرح سے نہیں دیکھ پا رہا، جس طرح اس کو دیکھنا چاہیئے اور اس وجہ سے ان دونوں ممالک میں شدت پسند تنظیمیں دوبارہ سے زور پکڑ رہی ہیں، اس صورت حال میں افغان طالبان کی حکومت میں داعش خراسان کو پناہ گاہیں حاصل ہیں، جبکہ وہ افغان طالبان کے شدید مخالف ہے۔ اسی طرح سے پاکستان کی مخالف کالعدم ٹی ٹی پی بھی افغانستان میں مضبوط ہو رہی ہے۔ اس رپورٹ کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ اس میں امریکی حکومت کو روایتی جنگ سے بچتے ہوئے صرف فوجی کارروائی کے امکان پر غور کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے اور یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ پاکستان کیساتھ مل کر امریکہ کو دوبارہ ان معاملات پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور پاکستانی فضائی حدود تک طویل المدتی امریکی رسائی کو محفوظ بنانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔

اس کیساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کو واضح طور پر بتا دینا چاہیئے کہ پاکستان نے اگر بھارت کیخلاف کوئی عسکریت پسندی کی تو اس کے سنگین منفی نتائج ہونگے۔ اس رپورٹ کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ پنپنے والے ان خیالات کو کسی وقت بھی عملی جامہ پہنا سکتا ہے۔ کیونکہ امریکہ پاکستان کو مکمل طور پر نظرانداز کرنے کی پوزیشن میں بالکل نہیں۔ عمران خان کے بعد امریکی حکام کافی فعال دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بھی شنید تھی کہ امریکیوں نے بلوچستان کے علاقوں میں کچھ ایئر بیسز پاکستان سے لئے ہیں۔ جن کا مقصد افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانا ہے۔ اس حوالے سے پاکستانی سیکرٹری داخلہ اور وزارت خارجہ کے کچھ افسران و حکام اس وقت افغانستان کے دورے پر ہیں۔ اس دورے کا مقصد صرف اور صرف افغان حکومت کو یہ باور کروانا ہے کہ وہ دہشتگردوں کے سلیپنگ سیلز ختم کرے، پاکستان میں ہونیوالی دراندازی کا تدارک کرے، بصورت دیگر پاکستان اگر ان دہشت گردوں کیخلاف کوئی کارروائی کرتا ہے تو وہ کارروائی افغانستان کیخلاف نہیں، بلکہ ان دہشت گردوں کیخلاف ہوگی۔

اس حوالے سے پاکستانی وفد اتمامِ حجت کیلئے کابل کے دورے پر ہے۔ اس وفد کے پاس ٹی ٹی پی کے پاکستان میں حملوں کے ٹھوس شواہد بھی ہیں، جن کو طالبان کی عبوری حکومت کسی طور نظرانداز نہیں کر پائے گی۔ اب کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف اپنی پوزیشن واضح کر دی ہے۔ اس میں اگر افغان عبوری حکومت پاکستان کیساتھ تعاون نہیں کرتی، تو اس سے پاکستان کو امریکہ کی حمایت حاصل ہو جائے گی، یوں ایک راہ ہموار ہوگی کہ امریکہ اور پاکستان مل کر دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنائیں۔ اس کیلئے امریکی ڈورن حملوں کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ افغانستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کیلئے حوالے سے پہلے ہی علمائے کرام کو اعتماد میں لیا جا چکا ہے۔ جن کا خدشہ تھا کہ وہ شور مچائیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے پاک فوج نے جہاں رائے عامہ ہموار کی ہے، وہیں پاکستان سے متوقع ردعمل کے ذرائع کو بھی اعتماد میں لے لیا گیا ہے۔

یوں اگر طالبان کی عبوری حکومت دہشت گردی کیخلاف پاکستان کیساتھ تعاون نہیں کرتی تو اس کیلئے دوسرا راستہ پھر یہی بچتا ہے کہ پاکستان امریکہ کی طرف دیکھے۔ یوں امریکی ماہرین کی رپورٹ نے بھی اپنی حکومت کو یہی تجویز دی ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے محدود فوجی کارروائی کی جائے۔ اس رپورٹ اور پاکستان کے موجودہ حالات کو مدنظر رکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے، کہ اس سے جہاں پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا، وہاں افغانستان کو بھی اپنی سرزمین پر قائم دہشت گردوں کے ٹھکانوں سے نجات مل جائے گی۔ طالبان کی اس عبوری حکومت کو بھی دنیا میں اپنا مقام اور سفارتی تعلقات کی بحالی کیلئے ان دہشت گردوں سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ پوری دنیا میں صرف چین کے علاوہ کسی دوسرے ملک نے طالبان کی حالیہ عبوری حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔

اگر طالبان حکومت چاہتی ہے کہ دنیا ان کیساتھ سفارتی تعلقات قائم کرے تو اسے پاکستان کیساتھ تعاون کرنا ہوگا، کسی کے ہاتھوں میں کھیلنے کی بجائے طالبان حکومت علاقے کی ترقی اور امن کا سوچے، اسی میں سب کی بھلائی ہے اور اگر طالبان حکومت پاکستان کیساتھ تعاون نہیں کرتی تو مستقبل میں ایک نئی جنگ کا امکان دکھائی دے رہا ہے۔ یہ جنگ محدود ہوگی، ہوسکتا ہے اس میں ڈرون حملے ہی ہوں، مگر نشانہ افغانستان ہی ہوگا۔ اس سے بہتر ہے کہ افغان طالبان حکومت کسی نئی مشکل میں پڑے، اسے دہشت گردی کیخلاف پاکستان کیساتھ تعاون کا ہاتھ ملا لینا چاہیئے۔


خبر کا کوڈ: 1139008

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1139008/دہشتگردی-کیخلاف-ایک-اور-جنگ-شروع-ہو-رہی-ہے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com