QR CodeQR Code

رفح سانحے میں امریکہ کا بڑا کردار

31 May 2024 19:34

اسلام ٹائمز: اسرائیلی اخبار ہارٹز نے بھی رفح میں فلسطینی پناہ گزینوں کی خیمہ بستی پر گرائے جانے والے بموں کے بارے میں جاری کردہ صیہونی فوج کے بیانئے کو غلط اور گمراہ کن قرار دیا۔ یاد رہے اس بیانئے میں کہا گیا تھا کہ فلسطینی پناہ گزینوں کی خیمہ بستی پر کم وزن والے بم گرائے گئے ہیں۔ ہارٹز کا تجزیہ نگار اس بارے میں لکھتا ہے: "فوج نے اپنے بیانئے میں دعوی کیا ہے کہ رفح پر جو دو بم گرائے گئے ہیں ان کا وزن 17 کلوگرام ہے۔ یہ بیانیہ گمراہ کن ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک بم کا وزن 110 کلوگرام تھا اور صیہونی فوج نے صرا ان بموں میں موجود دھماکہ خیز مادے کا وزن بیان کیا ہے اور ان بموں کا کل وزن بیان نہیں کیا۔" اخبار ہارٹز نے طعنہ آمیز انداز میں لکھا: "ایسا جھوٹا بیانیہ صرف اس میڈیا ذریعے کے مخاطبین سے مخصوص ہو سکتا ہے جو گذشتہ سات ماہ سے زیادہ اس جنگ کے حقیقی اعداد و شمار پر پردہ ڈالنے میں مصروف ہے۔"


تحریر: علی احمدی
 
ایسے وقت جب رفح میں حالیہ بربریت اور فلسطینی پناہ گزینوں کی خیمہ بستی پر آگ لگا دینے والے بموں سے حملے کے بعد دنیا بھر میں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے خلاف مذمت اور احتجاج کی لہر جاری ہے، امریکی حکمران بدستور تل ابیب کی غیر مشروط اور بھرپور حمایت پر اڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ بچوں کی قاتل صیہونی رژیم جس قدر وحشت ناک جرائم بھی انجام کیوں نہ دے ڈالے، وہ اس کی بلا چون و چرا حمایت جاری رکھیں گے۔ وائٹ ہاوس کے ترجمان جان کربی نے رفح میں صیہونی جارحیت کے بعد کہا: "یہ حملہ رفح پر بڑے زمینی حملے کے زمرے میں نہیں آتا لہذا امریکہ کی تعین کردہ ریڈ لائنز سے عبور نہیں کیا گیا جس کے باعث اسرائیل کے بارے میں ہماری سابقہ پالیسیاں جاری رہیں گی۔" یہ مجرمانہ اقدام جسے امریکی حکام نے محدود حملہ قرار دیا ہے، پناہ گزینوں کے خیموں کو آگ لگا کر خواتین اور بچوں کو زندہ زندہ آگ میں جلا کر راکھ کر دینے پر مشتمل تھا۔
 
اسرائیلی بموں پر یادگار نوٹ
اسرائیلی جرائم سے چشم پوشی کسی ایک امریکی سیاسی جماعت یا گروہ تک محدود نہیں ہے اور یہ چیز امریکی سیاست کا حصہ بن چکی ہے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ چند دن پہلے اور ایسے حالات میں کہ عالمی سطح پر رفح میں اسرائیل کے حالیہ مجرمانہ اقدام پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے، ایک طرف وائٹ ہاوس اسرائیل کی بھرپور حمایت جاری رکھنے کا اعلان کرتا ہے جبکہ دوسری طرف اقوام متحدہ میں امریکہ کی سابق نمائندہ، نکی ہیلی مقبوضہ فلسطین کا دورہ کرتی ہے اور وہاں جا کر اسرائیل کی حمایت کا اظہار کرنے کیلئے ایسے بموں پر یادگار نوٹ لکھتی ہے جنہیں بعد میں اہل غزہ پر گرایا جانا ہے۔ موصولہ رپورٹس کے مطابق ریپبلکن پارٹی سے وابستہ اس امریکی سیاست دان نے مغربی کنارے میں غیر قانونی یہودی بستیوں کا دورہ بھی کیا اور توپ کے چند گولوں پر یادگار نوٹ لکھا۔
 
رپورٹس کے مطابق نکی ہیلی نے گولے کے ایک توپ پر لکھا: "ان کا کام ختم کر دیں۔ امریکہ ہمیشہ اسرائیل کو چاہتا رہے گا۔" یاد رہے نکی ہیلی جب ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں سابق امریکی حکومت میں شامل تھی تو اس وقت بھی اسرائیل کی شدید حامی تصور کی جاتی تھی۔ اس نے کئی بار اسرائیل کے بارے میں منعقدہ اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں موضوع بحث ایران کی طرف موڑ دینے کی کوشش کی۔ امریکہ میں سرگرم غاصب صیہونی رژیم کی حامی لابیز جن سیاست دانوں کی بڑھ چڑھ کر مالی امداد کرتے ہیں اور ان کی الیکشن مہم چلاتے ہیں ان میں سے ایک نکی ہیلی ہے۔ سوشل میڈیا پر کچھ صارفین نے نکی ہیلی کی جانب سے اسرائیلی بموں پر یادگار نوٹ لکھنے پر مبنی اقدام پر ردعمل ظاہر کیا ہے اور اسے "نسل کشی کی ترغیب" کا واضح مصداق قرار دیتے ہوئے عالمی عدالت انصاف مین نکی ہیلی کے خلاف نسل کشی کو ہوا دینے کے جرم میں مقدمہ چلائے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔
 
رفح سانحے میں امریکی اسلحہ سے متعلق سی این این کی رپورٹ
امریکہ کے معروف نیوز چینل سی این این نے رفح پر اسرائیلی انسان سوز حملے کی تصاویر شائع کرتے ہوئے اس کے بارے میں ایک تجزیہ پیش کیا ہے۔ اس تجزیے میں کچھ فوجی ماہرین نے شواہد کی روشنی میں دعوی کیا ہے کہ پناہ گزینوں کی خیمہ بستی پر اسرائیل کی جانب سے گرایا گیا بم امریکی تھا اور اس کا نام جی بی یو 39 ہے۔ جلے ہوئے خیموں کے اردگرد اس بم کے ٹکڑے ملے ہیں۔ یہ جدید ترین گائیڈڈ بم امریکی کمپنی "بوئینگ" تیار کرتی ہے۔ سی این این نے پینٹاگون کے عہدیداروں سے رابطہ کیا اور ان سے کہا کہ وہ رفح میں فلسطینی پناگزینوں کے خیموں پر جی بی یو 39 بم گرائے جانے پر اظہار خیال کریں لیکن انہوں نے اس بارے میں کوئی بات کرنے سے انکار کر دیا۔
 
اسی طرح امریکی کالم نگار میچل ماشبک کہتا ہے: "رفح پر حملہ کسی زمانے میں بائیڈن کی ریڈ لائن تھی لیکن اسرائیل بدستور ریڈ لائنز سے عبور کرتا جا رہا ہے۔" میچل ماشبک اپنے مقالے میں امریکی صحافی اور کالم نگار جیمز کرچک کے اس موقف کو ناقابل فہم قرار دیتے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا: "غزہ میں اسرائیل کی جانب سے نسل کشی کا ارتکاب اکیسویں صدی کا سب سے بڑا وہم ہے"۔ ماشبک اس بارے میں لکھتے ہیں: "لیکن یوں دکھائی دیتا ہے کہ کم از کم امریکہ کے کچھ مین اسٹریم ذرائع ابلاغ انتہائی وحشت کے عالم میں اس نسل کشی کو درک کر رہے ہیں۔" اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر فرینچسکا البانیز رفح پر اسرائیل بربریت کے بارے میں ایکس پر اپنے پیغام میں لکھتے ہیں: "غزہ میں نسل کشی بیرونی دباو کے بغیر ختم نہیں ہو گی۔ اسرائیل کو پابندیوں، عدالتی کاروائی اور معاہدے معطل کرنے کی صورت میں جواب دینے کی ضرورت ہے۔"
 
اسرائیلی اخبار ہارٹز نے بھی رفح میں فلسطینی پناہ گزینوں کی خیمہ بستی پر گرائے جانے والے بموں کے بارے میں جاری کردہ صیہونی فوج کے بیانئے کو غلط اور گمراہ کن قرار دیا۔ یاد رہے اس بیانئے میں کہا گیا تھا کہ فلسطینی پناہ گزینوں کی خیمہ بستی پر کم وزن والے بم گرائے گئے ہیں۔ ہارٹز کا تجزیہ نگار اس بارے میں لکھتا ہے: "فوج نے اپنے بیانئے میں دعوی کیا ہے کہ رفح پر جو دو بم گرائے گئے ہیں ان کا وزن 17 کلوگرام ہے۔ یہ بیانیہ گمراہ کن ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک بم کا وزن 110 کلوگرام تھا اور صیہونی فوج نے صرا ان بموں میں موجود دھماکہ خیز مادے کا وزن بیان کیا ہے اور ان بموں کا کل وزن بیان نہیں کیا۔" اخبار ہارٹز نے طعنہ آمیز انداز میں لکھا: "ایسا جھوٹا بیانیہ صرف اس میڈیا ذریعے کے مخاطبین سے مخصوص ہو سکتا ہے جو گذشتہ سات ماہ سے زیادہ اس جنگ کے حقیقی اعداد و شمار پر پردہ ڈالنے میں مصروف ہے۔"


خبر کا کوڈ: 1138841

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1138841/رفح-سانحے-میں-امریکہ-کا-بڑا-کردار

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com