چابہار بندرگاہ کا معاہدہ اور خطے کے تجارتی امکانات
13 May 2024 21:06
اسلام ٹائمز: خطے میں سیاسی اختلافات اپنی جگہ، تاہم ہمارا مشترکہ دشمن غربت اور مہنگائی ہے، اگر ہم ملکر اس دشمن سے مقابلہ کریں تو خطے کے عوام کے معاشی حالات بہتر ہوسکتے ہیں اور خطہ مجموعی طور پر خوشحالی کی جانب بڑھ سکتا ہے۔ میرے خیال میں ہندوستان معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہے، بنگلہ دیش بھی اپنے سیاسی مسائل کو وقت کے فریزر میں ڈال کر اپنی معاشی پیشرفت کیلئے سرگرم عمل ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان بھی اپنی حکمت عملی اور پالیسی میں تبدیلی لائے، ورنہ اسکے عوام کی محرومی، کاسہ لیسی اور غلامی کبھی ختم نہیں ہوگی۔
تحریر: سید اسد عباس
آج مورخہ 13 مئی 2024ء کو تہران میں ہندوستان اور ایران کے مابین شہید بہشتی بندرگاہ جو چا بہار بندرگاہ کے نام سے بھی معروف ہے، اس کو چلانے کا دس سالہ معاہدہ انجام پایا۔ اس معاہدے کے تحت اس بندرگاہ کے کنٹرینر ٹرمینل میں سامان کی نقل و حمل میں جدت لائی جائے گی۔ یہ معاہدہ ایران کے شہری ترقی کے وزیر مہرداد بذرپاش اور انڈیا کے جہاز رانی کے وزیر سرباندا سونووال کے مابین ہوا۔ اس بندرگاہ کے حوالے سے ہندوستان پر مغربی حکومتوں کی جانب سے کافی دباؤ رہا ہے۔ سنہ 2014ء میں ایک سینیئر امریکی اہلکار کے انتباہ کے باوجود، انڈیا اور ایران نے چابہار بندرگاہ کی ترقی کے لیے ایک نئی یادداشت پر دستخط کیے تھے۔ 2016ء میں ایران، انڈیا اور افغانستان نے چابہار کے سہ فریقی معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کی بنیاد پر افغانستان اور انڈیا اس بندرگاہ کے ذریعے تجارت کرسکتے ہیں۔
نومبر 2018ء میں چابہار بندرگاہ سے برآمد ہونے والی چند مصنوعات کو امریکی پابندیوں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا، جن میں ایران سے افغانستان کو پیٹرولیم مصنوعات کی برآمد شامل تھی۔ اس وقت امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ یہ فیصلہ افغانستان کی ترقی اور ایران سے انسانی امداد بھیجنے کے لیے مواصلاتی راستے کو کھلا رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔ فروری 2019ء میں پہلی مرتبہ افغانستان سے برآمدی سامان انڈیا لے جانے والے ٹرک چابہار کے لیے روانہ ہوئے۔ فروری 2024ء میں طالبان حکومت کے ایک وفد نے چابہار بندرگاہ کا دورہ کیا اور اس کے بعد ایران کے خصوصی نمائندہ برائے افغان امور حسن کاظمی قمی نے اعلان کیا کہ طالبان حکومت اس بندرگاہ میں 35 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جا رہی ہے۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ انڈیا پاکستان میں کراچی اور گوادر کی بندرگاہوں کو بائی پاس کرنے کے لیے ایران کے جنوب مشرقی ساحل پر چابہار بندرگاہ کا ایک حصہ تیار کر رہا ہے اور چابہار کے راستے اپنا تجارتی سامان ایران، وسطی ایشیائی ممالک اور افغانستان کو برآمد کر رہا ہے۔ یقیناً ایسا ہوگا کیونکہ ہر ملک کو اپنے مفادات کے حصول کا حق حاصل ہے۔ وزیر جہاز رانی سربندا سونووال نے سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر اس معاہدے کی تصاویر شائع کرتے ہوئے حالیہ معاہدے کو دونوں ممالک کے تعلقات اور خطے کے لیے ایک تاریخی لمحہ قرار دیا۔ انھوں نے لکھا کہ اس معاہدے سے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مضبوط ہوں گے بلکہ یہ انڈیا کے لیے عالمی سپلائی چین اور میری ٹائم سیکٹر میں قدم جمانے کے لیے بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔
ایرانی میڈیا رپورٹس کے مطابق چابہار بندرگاہ کو جدید بنانے کے لیے انڈیا اسٹریٹجک آلات کی فراہمی میں 120 ملین ڈالر کے ساتھ ساتھ اس کے ٹرانسپورٹیشن انفراسٹرکچر کے لیے 250 ملین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کرے گا۔ ایران عراق جنگ کے دوران آبنائے ہرمز اور خلیج فارس کے باہر بندرگاہ کی ضرورت کے پیشِ نظر 1983ء میں شهید بہشتی بندرگاہ کو چابہار کی دوسری اہم ترین بندرگاہ کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ انڈیا کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ انڈیا، چابہار بندرگاہ کے انتظام کے حوالے سے ایران کے ساتھ طویل مدتی معاہدہ کرنا چاہتا ہے۔ ایس جے شنکر نے ممبئی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جیسے ہی ایک طویل مدتی معاہدہ طے پائے گا، چابہار بندرگاہ میں بڑی سرمایہ کاری کے لیے راستہ کھل جائے گا۔
مشترکہ سرحدیں نہ ہونے اور عالمی پابندیوں کے باوجود ایران ہندوستان کو تیل کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے۔ ایران کے وزیر تجارت کے مطابق 2022ء میں بھارت اور ایران کے درمیان تجارتی تبادلے کا کل حجم اڑھائی بلین ڈالر تھا۔ ایران اور بھارت کے درمیان تجارتی تبادلے میں گذشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں اس عرصے میں 48 فیصد اضافہ دیکھا گیا اور 2021ء میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تبادلے کا کل حجم ایک ارب 693 ملین ڈالر تھا۔ جنوری سے دسمبر 2022ء کے مہینوں میں، ایران کو بھارت کی برآمدات میں 44 فیصد اضافہ ہوا، جو پچھلے سال کے 1.284 ارب ڈالر کے مقابلے میں 1.847 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ اسی طرح 2022ء میں ایران سے بھارت کی درآمدات میں 60 فیصد اضافہ ہوا، جو 653 ملین ڈالر تک پہنچ گئی، جبکہ پچھلے سال کی اسی مدت میں یہ 409 ملین ڈالر تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق 2022ء میں بھارت سے ایران کو چاول سب سے اہم برآمدی مصنوعات تھی، کیونکہ ایران کو بھارت کی کل برآمدات کا 59 فیصد چاول سے متعلق تھا۔
2022ء میں بھارت کی ایران کو چاول کی برآمدات میں پچھلے سال کے مقابلے میں 52 فیصد اضافہ ہوا، جو 719 ملین ڈالر سے بڑھ کر 1.98 بلین ڈالر تک پہنچ گیا۔ 86 ملین ڈالر مالیت کی چائے اور 79 ملین ڈالر کی چینی بالترتیب ایران کو بھارت کی دوسری اور تیسری برآمدات بناتی ہے۔ تیل کی مصنوعات بھی 2022ء میں ایران سے درآمد کی جانے والی سب سے اہم اشیاء میں شامل ہیں، کیونکہ ان کی قیمت 175 ملین ڈالر تھی، جو پچھلے سال 4 گنا تھی، جو کہ 43 ملین ڈالر تھی۔ پینٹ کی تیاری کے لیے خام مال، جس کی مالیت 152 ملین ڈالر ہے اور 148 ملین ڈالر کے پھل، بالترتیب 2022ء میں ایران سے درآمد کی جانے والی دوسری اور تیسری اشیاء تھیں۔ اس کے مقابلے میں ایران اور پاکستان کا اس وقت باہمی تجارت کا حجم دو ارب ڈالر سے کچھ زیادہ ہے۔ جس میں سے 1.4 ارب ڈالر کی مصنوعات ایران پاکستان کو بھجواتا ہے جبکہ پاکستان کی برآمدات 8.8 ملین کے قریب ہیں۔ ایران کے صدر کے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران دونوں ممالک کے مابین باہمی تجارتی حجم کو دس ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
ہندوستان کی ایران کے ساتھ تجارت نیز خطے کے دیگر ممالک میں تجارتی امکانات کو دیکھا جائے تو یہ خطہ ایک اہم معاشی منڈی ہے، جس میں ہمارے سیاسی مسائل رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ہمیں چین کے تجربہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے مدنظر اس تجارتی موقع سے استفادہ کرنا چاہیئے۔ خطے میں سیاسی اختلافات اپنی جگہ، تاہم ہمارا مشترکہ دشمن غربت اور مہنگائی ہے، اگر ہم مل کر اس دشمن سے مقابلہ کریں تو خطے کے عوام کے معاشی حالات بہتر ہوسکتے ہیں اور خطہ مجموعی طور پر خوشحالی کی جانب بڑھ سکتا ہے۔ میرے خیال میں ہندوستان معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہے، بنگلہ دیش بھی اپنے سیاسی مسائل کو وقت کے فریزر میں ڈال کر اپنی معاشی پیشرفت کے لیے سرگرم عمل ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان بھی اپنی حکمت عملی اور پالیسی میں تبدیلی لائے، ورنہ اس کے عوام کی محرومی، کاسہ لیسی اور غلامی کبھی ختم نہیں ہوگی۔
خبر کا کوڈ: 1134915