ایران کا جوابی حملہ اور صیہونی حکام کی کنفیوژن
16 Apr 2024 15:45
اسلام ٹائمز: غاصب صیہونی رژیم کے سابق وزیراعظم ڈیوڈ بن گورین نے اس جعلی رژیم کی تشکیل کے چند سال بعد 1967ء میں چھ روزہ جنگ رمضان (یوم کیپور) اور 1973ء کی جنگ میں کامیابی کے بعد ایک اہم جملہ بولا تھا جو انتہائی قابل غور ہے۔ اس نے کہا تھا: "اسرائیل سو جنگیں بھی جیت سکتا ہے اور درپیش مشکلات پر قابو پا سکتا ہے لیکن اگر صرف ایک جنگ میں ہار گیا تو اس کا مطلب اس کی موت ہو گا۔" اگرچہ صیہونی حکمران اس وقت یہ حقیقت بیان نہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ خود اچھی طرح اسے بھانپ چکے ہیں کہ حالیہ حملے میں وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے مقابلے میں واضح شکست کھا چکے ہیں۔ لہذا وہ 80 سال پورے ہونے سے پہلے ہی موت واقع ہو جانے سے خوف زدہ ہیں۔
تحریر: سید رضی عمادی
اسلامی جمہوریہ ایران نے اتوار 14 اپریل کی علی الصبح اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم پر وسیع تعداد میں خودکش ڈرون طیاروں اور مختلف قسم کے میزائلوں سے حملہ کیا۔ اسے "وعدہ صادق آپریشن" کا نام دیا گیا ہے۔ یہ حملہ دراصل اس اسرائیلی جارحیت کا جواب تھا جو غاصب صیہونی رژیم نے یکم اپریل کے دن دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر انجام دی تھی اور اس کے نتیجے میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی قدس فورس کے کئی اعلی سطحی کمانڈرز شہید ہو گئے تھے۔ اس اسرائیلی جارحیت کے فوراً بعد ہی ایرانی حکام نے جوابی کاروائی کی دھمکی دے دی تھی۔ رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے پیغام میں تاکید کی تھی کہ "اسرائیل کو ایسا جواب دیا جائے گا جس سے وہ پشیمان ہو جائے گا"۔ سپاہ پاسداران نے اتوار کے دن انجام پانے والے وعدہ صادق آپریشن کے بارے میں جاری اعلامیے میں کہا کہ ہمیں توقع سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ دوسری طرف اسرائیلی حکام اس حملے کے بعد شدید کنفیوژن کا شکار ہیں۔
صیہونی حکمرانوں کے متضاد ردعمل
ایران کے جوابی حملے کے ردعمل میں صیہونی حکمران واضح تضادات کا شکار ہو چکے ہیں۔ وہ ایک طرف دعوی کر رہے ہیں کہ انہوں نے ایران کی جانب سے داغے گئے ڈرون طیاروں اور میزائلوں کا 99 فیصد حصہ فضا میں ہی مار گرایا ہے اور اس حملے میں ان کا کوئی خاص نقصان نہیں ہوا جبکہ دوسری طرف صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پر اپنی کابینہ میں شامل دائیں بازو کے چند انتہاپسند وزیروں اور دیگر مخالفین کی جانب سے شدید دباو ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اس حملے کا جواب دے لہذا صیہونی رژیم کی جنگی کابینہ بھی اب تک کئی اجلاس منعقد کر چکی ہے جن کا فی الحال کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ ان اجلاس کا مقصد ایران کو دیے جانے والے ممکنہ جواب کی نوعیت طے کرنا ہے۔ یہ متضاد بیانات اور رویے اس ذلت آمیز شکست کا منہ بولتا ثبوت ہیں جو غاصب صیہونی رژیم نے ایران سے کھائی ہے۔
صیہونی اخبار یدیعوت آحارنوٹ نے اپنی رپورٹ میں دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر اسرائیلی حملے کو صیہونی کابینہ کے غلط اندازوں کے نتیجے میں غلط اقدام قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ ایران کی جانب سے حالیہ جوابی کاروائی اسرائیل کیلئے ایک اسٹریٹجک شکست ہے۔ دوسری طرف امریکی تجزیہ کار اسکاٹ ریٹر نے اپنے مقالے میں لکھا ہے: "ایران نے اپنے کم از کم سات سپر سانک جدید میزائلوں کے ذریعے اسرائیلی فضائیہ کے نواتیم ایئربیس کو نشانہ بنایا ہے۔ نواتیم ایئربیس ان ایف 35 لڑاکا طیاروں کا گھر ہے جن کے ذریعے اسرائیل نے دمشق میں ایرانی قونصلیٹ کو میزائل حملوں کا نشانہ بنایا تھا۔ اس حملے میں حتی ایک ایرانی میزائل بھی روکا نہیں جا سکا۔" صیہونی حکام ایک طرف دعوی کرتے ہیں کہ ایرانی حملہ کامیاب نہیں تھا جبکہ دوسری طرف یہ واویلا مچا رہے ہیں کہ ان کی ڈیٹرنس پاور ختم ہو چکی ہے لہذا جوابی حملے سے اسے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔
ان متضاد بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کا وعدہ صادق فوجی آپریشن بہت اچھی منصوبہ بندی کے تحت انجام پایا ہے اور پوری طرح کامیاب رہا ہے۔ اسی طرح یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس فوجی کاروائی نے غاصب صیہونی رژیم پر کاری ضرب لگائی ہے۔ ایسی ضرب جس کے نتیجے میں صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو تلملا اٹھا ہے اور اس شکست کا ازالہ کرنے کیلئے ایران پر جوابی حملہ انجام دینے پر زور دے رہا ہے، چاہے وہ انتہائی محدود اور نمائشی ہی کیوں نہ ہو۔
ایران کی جوابی کاروائی کیوں ناقابل ازالہ وار ہے؟
غاصب صیہونی رژیم کے برعکس اسلامی جمہوریہ ایران نے اس پر اچانک حملہ نہیں کیا بلکہ دو ہفتے پہلے سے جوابی حملہ انجام دینے کا اعلان کر چکا تھا اور خطے کے ممالک بھی اس سے پوری طرح مطلع تھے۔
دوسری طرف اگرچہ صیہونی رژیم کے کچھ مغربی ممالک نے واویلا مچا رکھا ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے جائز دفاع کی مذمت کی ہے لیکن ایران نے اپنی نپی تلی اور انسانی جوابی کاروائی میں کسی سویلین کو نشانہ نہیں بنایا اور نہ ہی کسی سفارتی مرکز پر حملہ کیا ہے۔ اس کاروائی میں صیہونی رژیم کے فوجی مراکز کو میزائلوں اور ڈرون طیاروں کے ذریعے نشانہ بنایا گیا ہے۔ صیہونی حکمران ایران کے جوابی حملے سے چند دن پہلے سے ہی شدید خوف و ہراس اور سراسیمگی کا شکار تھے اور جس رات یہ جوابی کاروائی انجام پائی اس رات ان کا خوف اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔ یہ انتہائی ذہانت پر مبنی منصوبہ بندی بھی صیہونی رژیم کی شدید شکست اور دھچکے کی ایک وجہ تھی۔ مزید برآں، غاصب صیہونی رژیم اس وقت شدید کنفیوژن کا شکار ہو چکی ہے۔ وہ ایک طرف دنیا کی سب سے بڑی فوج کا مالک ہونے کی دعویدار ہے جبکہ دوسری طرف ایران کا جواب دینے کے بارے میں حتمی فیصلہ نہیں کر پا رہی۔
نتیجہ
غاصب صیہونی رژیم کے سابق وزیراعظم ڈیوڈ بن گورین نے اس جعلی رژیم کی تشکیل کے چند سال بعد 1967ء میں چھ روزہ جنگ رمضان (یوم کیپور) اور 1973ء کی جنگ میں کامیابی کے بعد ایک اہم جملہ بولا تھا جو انتہائی قابل غور ہے۔ اس نے کہا تھا: "اسرائیل سو جنگیں بھی جیت سکتا ہے اور درپیش مشکلات پر قابو پا سکتا ہے لیکن اگر صرف ایک جنگ میں ہار گیا تو اس کا مطلب اس کی موت ہو گا۔" اگرچہ صیہونی حکمران اس وقت یہ حقیقت بیان نہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ خود اچھی طرح اسے بھانپ چکے ہیں کہ حالیہ حملے میں وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے مقابلے میں واضح شکست کھا چکے ہیں۔ لہذا وہ 80 سال پورے ہونے سے پہلے ہی موت واقع ہو جانے سے خوف زدہ ہیں۔
خبر کا کوڈ: 1129035