QR CodeQR Code

غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد

27 Mar 2024 01:41

اسلام ٹائمز: اس بات سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ آیا سلامتی کونسل میں منظور ہونے والی یہ قرارداد لاگو ہوتی ہے یا نہیں، یہ قرارداد امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم کی سیاسی شکست ہے اور عالمی رائے عامہ کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم پر دباو میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ اسی طرح یہ قرارداد غزہ کے جنوبی شہر رفح پر اسرائیلی حملے کو بھی موخر کر سکتی ہے۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد لازمی ہوتا ہے لیکن اقوام متحدہ کے پاس اپنی قرارداد کو لاگو کرنے کیلئے محدود اختیارات ہیں۔ سلامتی کونسل غاصب صیہونی رژیم کے خلاف تعزیری اقدامات انجام دے سکتی ہے (اگرچہ امریکہ ایسے اقدامات کی راہ میں رکاوٹ بن جائے گا)۔ اگر اس قرارداد پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا تو بلاشبہ سلامتی کونسل کے اعتبار اور حیثیت کو شدید ٹھیس پہنچنے کے ساتھ ساتھ اس کی عدم افادیت بھی ثابت ہو جائے گی۔


تحریر: سید رضی عمادی
 
آخرکار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد منظور کر لی گئی ہے۔ یہ قرارداد عارضی اراکین نے پیش کی تھی جس کے حق میں 14 ووٹ پڑے اور امریکہ نے اسے ویٹو نہیں کیا۔ اگرچہ امریکہ نے اس قرارداد کی حمایت اور مخالفت نہیں کی اور غیرجانبدار رہا لیکن قرارداد منظور ہونے کے بعد امریکی اور صیہونی حکام کے بیانات نے بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ تحریر حاضر میں ہم اس قرارداد کے متن اور اس کے نتائج پر مختصر روشنی ڈالیں گے۔
قرارداد کن حالات میں منظور ہوئی؟
غزہ میں غاصب صیہونی رژیم کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی جاری ہوئے چھ ماہ ہونے والے ہیں۔ گذشتہ 171 دنوں میں 32 ہزار 330 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جبکہ 74 ہزار 600 فلسطینی زخمی ہیں۔
 
غاصب صیہونی رژیم نے غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی روک رکھی تھی اور غزہ کے لوگوں خاص طور پر بچوں کو بھوکا رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اس دوران، فضائی بمباری اور صحت کے مراکز کا محاصرہ بھی جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونی گوتریش بارہا غزہ میں نسل کشی پر اعتراض کر چکے تھے جبکہ گذشتہ چند دنوں میں انہوں نے غزہ کے جنوبی شہر رفح سمیت خطے کا دورہ کیا اور غزہ میں انسانی صورتحال کو "دلخراش" قرار دینے کے ساتھ اسے صیہونی رژیم کیلئے اخلاقی رسوائی بیان کیا۔ عالمی سطح پر بھی امریکہ کے پاس ویٹو کے اختیار کے سبب سلامتی کونسل عملی طور پر ایک بے اعتبار اور ناکارہ ادارہ بن چکا تھا اور غزہ میں نسل کشی کی روک تھام میں ناکام ہو چکا تھا۔
 
جنگ بندی کی قراردادوں کو بار بار ویٹو کرنے کے باعث عالمی سطح پر امریکہ کا چہرہ بھی خراب ہو رہا تھا اور اس کے انسانی حقوق کے دعووں پر سوال اٹھنا شروع ہو گئے تھے۔ ایسے حالات میں، گذشتہ ایک ہفتے کے دوران سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد منظور کروانے کیلئے کوششیں تیز ہو گئی تھیں۔ گذشتہ ہفتے جمعہ کے روز روس اور چین نے امریکہ کی جانب سے پیش کردہ قرارداد ویٹو کر دی تھی کیونکہ اس میں غزہ میں نسل کشی کی حمایت پائی جاتی تھی جبکہ اس کی روک تھام کیلئے موثر ثابت نہیں ہو سکتی تھی۔ اس کے بعد سلامتی کونسل کے اراکین نے ایک نیا بل پیش کیا جس کی تمام اراکین نے حمایت کی اور امریکہ نے اس پر خاموشی اختیار کی۔ یوں جنگ بندی کی قرارداد منظور کر لی گئی۔
 
قرارداد کا متن کیا ہے؟
یہ قرارداد تین اہم حصوں پر مشتمل ہے: ماہ مبارک رمضان کے دوران فوری جنگ بندی، تمام صیہونی یرغمالیوں کی فوری اور غیر مشروط آزادی اور غزہ تک انسانی امداد کی فراہمی میں درپیش تمام رکاوٹیں ختم کرنا۔ مزید برآں، اس قرارداد میں 7 اکتوبر 2023ء کے دن حماس کے فوجی آپریشن "طوفان الاقصی" کی مذمت بھی نہیں کی گئی۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکہ کے دباو پر اس قرارداد میں موجود عبارت "مستقل جنگ بندی" کو نکال دیا گیا ہے اور مستقل جنگ بندی کیلئے مذاکرات کو ماہ مبارک رمضان کے بعد موکول کر دیا گیا ہے۔ قرارداد کے حتمی متن میں حماس کی مذمت بھی شامل نہیں ہے۔ وائٹ ہاوس کے قومی سلامتی کے اسٹریٹجک تعلقات کے کوآرڈینیٹر جان کربی نے اسی بات کو امریکہ کی جانب سے غیر جانبدار رہنے کی وجہ قرار دیا ہے۔
 
قرارداد منظور ہونے کے نتائج کیا ہیں؟
1)۔ اس قرارداد پر غور اور منظوری کے وقت سلامتی کونسل کی فضا واضح طور پر صیہونزم مخالف تھی۔ سلامتی کونسل کے تقریباً اراکین نے غزہ کی خراب صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔ صیہونی حکمرانوں کے غصے کی ایک اہم وجہ یہی صیہونی رژیم کے خلاف حکمفرما فضا تھی۔
2)۔ اس قرارداد کی منظوری امریکہ کی واضح شکست تھی۔ امریکی حکام کے بیانات اور طرزعمل کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ بائیڈن حکومت غاصب صیہونی رژیم کے مقابلے میں بیچاری ہو چکی ہے۔ وہ ایک طرف غزہ میں صیہونی جرائم کی حامی ہے جبکہ دوسری طرف غزہ میں انسانی صورتحال شدید نازک ہو جانے اور عالمی دباو کے پیش نظر وہاں انسانی امداد بھیجنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ غزہ جنگ سے متعلق امریکہ کا واضح تضاد ہے۔
 
3)۔ اس قرارداد کی منظوری حماس کیلئے اہم سیاسی کامیابی تھی کیونکہ اس میں حماس کی مذمت نہیں کی گئی۔ قرارداد میں فوری جنگ بندی اور غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی پر زور دیا گیا ہے۔ اگرچہ صیہونی یرغمالیوں کی آزادی بھی اس میں شامل ہے لیکن بلاشبہ حماس یہ اقدام صرف مستقل جنگ بندی کے بعد ہی انجام دے گی۔
4)۔ یہ قرارداد غزہ میں نسل کشی رک جانے کا باعث نہیں بنے گی۔ صیہونی حکام نے اس کی منظوری کے فوراً بعد اعلان کیا ہے کہ اس پر عمل پیرا نہیں ہوں گے۔ صیہونی رژیم کی جنگی کابینہ کے ترجمان نے کہا: "سلامتی کونسل کی قرارداد کی ہماری نظر میں کوئی اہمیت نہیں"۔ دوسری طرف امریکہ کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا: "سلامتی کونسل میں منظور شدہ قرارداد پر عمل لازمی نہیں ہے اور اسے لاگو کرنے کیلئے مذاکرات انجام پائیں گے۔" یوں اس قرارداد کے ممکنہ طور پر لاگو نہ ہونے کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے جو سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ اور اقوام متحدہ میں چین اور روس کے مستقل نمائندوں کے بیانات میں واضح ہے۔
 
نتیجہ گیری
اس بات سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ آیا سلامتی کونسل میں منظور ہونے والی یہ قرارداد لاگو ہوتی ہے یا نہیں، یہ قرارداد امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم کی سیاسی شکست ہے اور عالمی رائے عامہ کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم پر دباو میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ اسی طرح یہ قرارداد غزہ کے جنوبی شہر رفح پر اسرائیلی حملے کو بھی موخر کر سکتی ہے۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد لازمی ہوتا ہے لیکن اقوام متحدہ کے پاس اپنی قرارداد کو لاگو کرنے کیلئے محدود اختیارات ہیں۔ سلامتی کونسل غاصب صیہونی رژیم کے خلاف تعزیری اقدامات انجام دے سکتی ہے (اگرچہ امریکہ ایسے اقدامات کی راہ میں رکاوٹ بن جائے گا)۔ اگر اس قرارداد پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا تو بلاشبہ سلامتی کونسل کے اعتبار اور حیثیت کو شدید ٹھیس پہنچنے کے ساتھ ساتھ اس کی عدم افادیت بھی ثابت ہو جائے گی۔


خبر کا کوڈ: 1125119

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1125119/غزہ-میں-جنگ-بندی-کی-قرارداد

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com