QR CodeQR Code

القاعدہ کے بارے میں کچھ انکشافات

26 Mar 2024 22:42

اسلام ٹائمز: القاعدہ کے حوالے سے فارن پالیسی میگزین کے دعوے کے مطابق، پچھلے دو سالوں میں تخار اور بدخشاں کی سونے کی کانوں سے کان کنی کا 25 فیصد حصہ القاعدہ کیلئے مختص تھا، جس سے اس گروپ نے تقریباً 195 ملین ڈالر کمائے ہیں۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس دہشتگرد گروہ اور اسکے حمایت یافتہ گروہوں کے پاس مختلف مالی وسائل تک رسائی ہے، جو انھیں مزید مضبوط کرسکتے ہیں۔ اگرچہ امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ معاہدے کی شقوں کے بارے میں بہت زیادہ تفصیلی معلومات نہیں ہیں، لیکن کہا جاتا ہے کہ طالبان نے امریکہ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ افغانستان کو امریکہ مخالفوں کی چھپنے کی جگہ اور امریکہ مخالف عناصر کی آماجگاہ نہیں بننے دینگے۔


تحریر: مجید وقاری

فارن پالیسی میگزین نے افغانستان میں برسراقتدار طالبان اور دہشت گرد گروپ القاعدہ اور اس کے حمایت یافتہ گروہوں کے درمیان تعلقات کے حوالے سے ایک سنجیدہ الزام لگایا ہے اور اگر یہ درست ہے تو طالبان کے لیے اس کے نتائج  تشویش ناک اور حتمی ہیں۔ فارن پالیسی کی رپورٹ کے مطابق القاعدہ سے وابستہ 14 گروپ ہیں، جن میں ایسٹ ترکستان موومنٹ، جماعت انصار اللہ، پاکستان ٹی ٹی پی، القاعدہ ان دی عربین پینسولا، یمن، عراق، شام، برصغیر پاک و ہند اور مشرقی افریقہ کے مختلف گروہوں کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ افغانستان میں کان کنی سے حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک بڑا حصہ یہ دہشت گرد گروہ استعمال کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان میں حکمران طالبان گروپ ان گروہوں کے لیے مالی کوٹہ مختص کرکے ان گروپوں کی مالی مدد کر رہا ہے۔

اس کے علاوہ فارن پالیسی کی رپورٹ کے مطابق افغان طالبان، القاعدہ کو خواتین، پاسپورٹ اور ہتھیار فراہم کرتے ہیں۔ القاعدہ کے کمانڈروں اور کارندوں کو آسانی سے رہائش اور پاسپورٹ فراہم کرنے کے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں۔القاعدہ اور طالبان کے درمیان تعلق افغانستان میں طالبان کی حکومت کے پہلے دور سے ہے، یعنی اس دور سے جب ملا عمر کے دور میں، امریکہ نے اس کے رہنماؤں، خاص طور پر بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ لادن پر ٹریڈ سینٹر پر 2001ء کے حملوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔۔ اس امریکی درخواست پر طالبان کی عدم توجہی اس کے افغانستان پر حملے اور طالبان کی حکومت کے خاتمے کا باعث بنی۔

سیاسی امور کے ماہر اسد اللہ بشیر کہتے ہیں: "طالبان اور القاعدہ کے درمیان تعلقات پرانے ہیں اور یہاں تک کہ افغانستان میں القاعدہ کی موجودگی طالبان کے قیام اور اس ملک پر قبضے سے پہلے کی ہے۔ سابق سوویت ریڈ آرمی کے خلاف امریکیوں نے القاعدہ کی تشکیل اور مضبوطی میں کردار ادا کیا، جنہیں اس وقت افغان عربوں کا گروپ کہا جاتا تھا۔ القاعدہ اور طالبان کے درمیان تعلق کے بارے میں فارن پالیسی رپورٹ میں بیان کردہ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ طالبان ہیروئن کے وسیع نیٹ ورک تک رسائی حاصل کرنے میں القاعدہ کی مدد کرتے ہیں۔ امریکا مخالف گروپ کے طور پر طالبان گروپ کی سرگرمیوں کے دوران یہ شبہ بھی سامنے آیا تھا کہ طالبان اپنے بجٹ اور مالی وسائل فراہم کرنے کے لیے منشیات کی اسمگلنگ کا استعمال کرتے ہیں اور اب وہ القاعدہ کو فنڈنگ ​​کے لیے ہیروئن کی اسمگلنگ کی طرف دھکیل رہے ہیں۔

القاعدہ کے حوالے سے فارن پالیسی میگزین کے دعوے کے مطابق، پچھلے دو  سالوں میں، تخار اور بدخشاں کی سونے کی کانوں سے  کان کنی کا 25 فیصد حصہ القاعدہ کے لئے مختص تھا، جس سے اس گروپ نے تقریباً 195 ملین ڈالر کمائے ہیں۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس دہشت گرد گروہ اور اس کے حمایت یافتہ گروہوں کے پاس مختلف مالی وسائل تک رسائی ہے، جو انھیں مزید مضبوط کرسکتے ہیں۔ اگرچہ امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ معاہدے کی شقوں کے بارے میں بہت زیادہ تفصیلی معلومات نہیں ہیں، لیکن کہا جاتا ہے کہ طالبان نے امریکہ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ افغانستان کو امریکہ مخالفوں کی چھپنے کی جگہ اور امریکہ مخالف عناصر کی آماجگاہ نہیں بننے دیں گے۔

اس صورت حال میں اگر افغانستان میں القاعدہ کے مالی وسائل کے حوالے سے فارن پالیسی میگزین کے نتائج درست ہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ القاعدہ جیسے دہشت گرد گروہ اور اس کے حمایت یافتہ 14 گروہ خطے کی سلامتی کو درہم برہم کرنے اور دہشت پھیلانے جیسے مقاصد کے لئے افغانستان میں کام کر رہے ہیں۔ ان گروہوں کے آپریشنل علاقے میں وسطی ایشیاء، روس اور چین کی سرحدیں حتی چین کا اندرونی علاقہ بھی شامل ہے۔۔ اس طرح کے گروہوں کے کچھ مظاہر دنیا نے قندھار، کابل حتیٰ کہ ماسکو میں ہونے والے حالیہ دہشت گردانہ حملوں میں دیکھے ہیں۔


خبر کا کوڈ: 1125115

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1125115/القاعدہ-کے-بارے-میں-کچھ-انکشافات

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com