سانحہ ٹھیڑی واقعہ کربلا کی یاد میں(1)
13 Dec 2023 13:11
اسلام ٹائمز: مکمل طور پر تاریکی چھا گئی تو ٹھیڑی والوں نے ہاتھوں میں خالی بالٹیاں لیں اور ڈنڈوں پر کپڑے باندھ کر انکو علم کی شکل دیتے ہوئے یاحسین علیہ السلام، یاحسین علیہ السلام کی صدائیں بلند کرتے ہوئے زخموں اور لاشوں کے درمیان سے گزرے اور پوچھ رہے تھے کہ کوئی پیاسا ہو تو پانی پی لے۔ اب پیاس کی شدت اور زخموں سے نڈھال کوئی زخمی ان کو شیعہ سمجھ کر پانی مانگتا تو اس کے گلے پر چھُری چلا دیتے۔ یزیدیوں نے اپنے آباؤ اجداد کی پیروی کرتے ہوئے تقریباً تمام شہیدوں کے گلے کاٹے یا ان کے سر تن سے جدا کر دیئے۔
تحریر: معظمہ مظہر علی
وطن عزیز پاکستان کی تشکیل کے بعد مسلمانوں کے قتل عام اور دہشتگردی کا پہلا واقعہ جس کے سننے کے بعد دل لرز جاتے ہیں۔ ایسی دہشتگردی اور حیوانیت پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی، لیکن افسوس کہ یہ پہلا واقعہ بھی حسینی مسلمانوں کے ساتھ پیش آیا۔ یہ واقعہ 3 جون 1963ء کو ٹھیڑی سندھ میں ہوا، اس دن یوم عاشورہ تھا۔ پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن، جس میں 300 سے زائد عزادار شہید ہوئے۔ روز عاشور 3 جون 1963ء کے دن جناب مہدی شاہ کے مکان میں جو کہ ٹھیڑی میں واحد محب حسین کا گھر تھا۔ صبح 8 بجے مجلس عزاء جاری تھی، جس میں 5 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود قصبہ ببرلو اور خیرپور شہر کے مومنین شریک تھے۔ جن کی تعداد 20 سے 25 افراد سے زائد نہ تھی۔ لہذا ٹھیڑی کے تکفیری عناصر 400 سے 500 مسلح افراد نے منظم منصوبہ بندی کے تحت مجلس عزاء پر حملہ کیا، جس میں مالک مکان، ذاکر اور دیگر عزادار شدید زخمی ہوگئے اور گھر کو آگ لگا دی گئی۔
اس کے نتیجے میں محلہ لقمان خیرپور میں مرکزی امام بارگاہ سے جو جلوس عزاء برآمد ہونا تھا، جلوس عزاء کے ماتمیوں اور اہل لقمان نے یہ طے کیا کہ ہم اس وقت تک جلوس برآمد نہیں کریں گے، جب تک ٹھیڑی میں جلوس عزاء برآمد نہ ہو جائے۔ لہذا اس میں موجود جناب نسیم اختر نامی ایک شخص نے مولانا سبطین کو کندھے پر بٹھایا اور خطاب کرتے ہوئے کہ آج بھی حسینیت اور یزیدیت کی جنگ ہے، ٹھیڑی کہ جانب روانہ ہوگیا۔ یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ سخت گرمی اور عاشور فاقہ کے باوجود، ہزاروں افراد پر مشتمل مجمع، جس میں 9 سال سے لے کر 70 سال کی عمر کے افراد شامل تھے۔ یہ قافلہ امام حسین علیہ السلام کے عشق میں ٹھیڑی کی جانب روانہ ہوا۔
لقمان خیرپور کا یہ قافلہ تقریباً 3 گھنٹے کی پیدل مسافت کے بعد شام کے قریب 5 بجے ٹھیڑی پہنچا، جہاں ٹھیڑی قصبے میں داخل ہونے کے لئے واحد راستہ تین فٹ کی تنگ گلیاں تھیں۔ جس میں تکفیری دشمن کلہاڑیوں اور اسلحہ لئے انتظار میں تھا، پھر اہل جلوس پر فائرنگ اور پتھراؤ ہو رہا تھا اور نیچے کلہاڑیوں اور طبل لیے عزاداروں پر حملہ۔ کشت و خون کا بازار گرم اور عاشور کا سورج بھی شام غریباں ہونے کے لئے غروب ہو رہا تھا۔ سورج غروب ہوا تو چاروں طرف تاریکی پھیل گئی، کیونکہ اس زمانے میں وہاں بجلی نہیں تھی۔ اسی دوران افواہ پھیلی کہ فوج آگئی اور مجمع خیرپور کی جانب پلٹنے لگا اور ٹھیڑی کی گلیوں میں محصور عزادار مکمل طور پر ان کے رحم و کرم پر تھے۔
ایک زخمی عزادار نذر عباس، جو لاشوں کے درمیان پڑا ہوا تھا، مکمل طور پر تاریکی چھا گئی تو ٹھیڑی والوں نے ہاتھوں میں خالی بالٹیاں لیں اور ڈنڈوں پر کپڑے باندھ کر ان کو علم کی شکل دیتے ہوئے یاحسین علیہ السلام، یاحسین علیہ السلام کی صدائیں بلند کرتے ہوئے زخموں اور لاشوں کے درمیان سے گزرے اور پوچھ رہے تھے کہ کوئی پیاسا ہو تو پانی پی لے۔ اب پیاس کی شدت اور زخموں سے نڈھال کوئی زخمی ان کو شیعہ سمجھ کر پانی مانگتا تو اس کے گلے پر چھُری چلا دیتے۔ یزیدیوں نے اپنے آباؤ اجداد کی پیروی کرتے ہوئے تقریباً تمام شہیدوں کے گلے کاٹے یا ان کے سر تن سے جدا کر دیئے۔
لیکن اب بھی ان ظالموں کے ظلم کی پیاس نہیں بجھی تھی یا شہداء کے درجات کو بلند ہونا تھا، اس لیے انہوں نے میدان کربلا میں لشکر یزید کے امام حسین علیہ السلام کے جسم اطہر پر گھوڑے دوڑانے کی رسم کو ادا کرنے کے لئے بھینسوں کے پاؤں میں خالی ڈبوں کو باندھ کر شہیدوں کی لاشوں پر چھوڑ دیا، تاکہ رات کے اندھیرے میں کسی کے زندہ بچنے کا امکان ہی ختم ہو جائے۔ اس طرح یہ بھینسیں شہیدوں اور زخمیوں پر دوڑتی رہیں۔ لیکن ابھی بھی ایک اور مرحلہ باقی تھا، ان لوگوں نے شہداء کے لاشے جمع کئے اور سب کو ایک خالی کنویں میں لے جا کر ڈالنے لگے، تاکہ ان کے جسموں کو مٹی کے تیل سے جلا کر کنویں کو بند کر دیا جائے۔
اپنے عقائد پر جان دینے والے ان شہداء کو بنا غسل و کفن تدفین کی گئی۔ جب ان شہداء کو گنج شہیداں کے مقام پر دفن کر دیا گیا۔ پھر حکومتِ وقت نے پورے علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا اور کسی بھی شخص کو ان شہداء کی قبروں پر جانے کی اجازت نہیں دی۔ کچھ دن بعد رات میں ایک معجزہ ہونا شروع ہوا، گنج شہیداں کے قریب رہنے والے برادران اہلسنت نے آکر یہ خبر دی کہ ہر شب گنج شہیداں سے یاحسین علیہ السلام، یاحسین علیہ السلام کی صدائیں آتی ہیں، جیسے وہاں ماتم ہو رہا ہو۔ جب مومنین نے وہاں جا کر دیکھا تو کوئی بھی نہیں تھا۔
تحقیق کرنے کے بعد عینی شاہدین نے بتایا کہ رات کے وقت ایک نور مثل روشنی گنج شہیداں میں قبلہ کی طرف سے آتا ہے اور ہر شہید کی قبر کچھ دیر قیام کے بعد علم غازی عباس علمدار علیہ السلام کی جانب بڑھتا ہے، جس وقت یہ نور قبروں سے علم پر پہنچتا ہے تو تمام شہداء کی قبروں سے شدت کے ساتھ یاحسین علیہ السلام، یاحسین علیہ السلام کی صدائیں بلند ہوتی اور دور دور تک سنی جاتیں تھیں۔ اس وقت سے لے کر آج تک گنج شہیداں میں معجزات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ ٹھیڑی کے شہداء جن میں سے ہر ایک شہید کی روح میں تازگی ہے۔ ہمیں شہداء سے وہ خوشبو ضرور حاصل کرنی چاہیئے، جو ہماری روح کو تازہ کرے۔ آئیں کچھ دیر ان شہداء کے پاس بیٹھتے ہیں، ان سے گفتگو کرتے ہیں۔۔۔ ان میں س ایک شہید اختر حسین زیدی ہیں، جو گنج شہیداں لقمان میں مدفون ہیں۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ: 1102423