QR CodeQR Code

غزہ جنگ میں میڈیا کا کردار

15 Nov 2023 20:25

اسلام ٹائمز: اس مقصد کیلئے غاصب صیہونی رژیم نے عالمی صیہونزم کے اختیار میں موجود عظیم میڈیا ذرائع کو بروئے کار لایا اور "جعلی خبروں" کی بنیاد پر "کہانیاں" بنا کر عالمی رائے عامہ کے انسانی جذبات حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ "حماس نے چالیس بچوں کے سر کاٹ دیے" یا "اسرائیلی بچوں کو جلا ڈالا" اور "ہمارے بچوں کو انتہائی قریب سے گولی مار دی گئی" وغیرہ ایسی ہی جعلی خبروں کی کچھ مثالیں ہیں جو اسی مقصد کیلئے گھڑی گئیں اور ایک دو دن تک اسرائیل کا مظلوم چہرہ پیش کرنے میں کچھ حد تک کامیاب بھی رہیں۔ اس کام کے دو بنیادی مقاصد تھے: ایک عالمی رائے عامہ خاص طور پر عالمی طاقتوں کو فلسطینیوں کے مقابلے میں اپنے ساتھ ملانا اور دوسرا ان مجرمانہ اقدامات کی توجیہہ پیش کرنا جو صیہونی رژیم عنقریب انجام دینے والی تھی۔


تحریر: جعفر بلوری
 
غزہ جنگ کو 39 دن پورے ہونے پر کل میں نے انسٹاگرام پر صیہونی رژیم کی جانب سے فلسطینی بچوں کے قتل عام سے متعلق ایک پوسٹ شائع کی۔ ایک دوست نے اس کے نیچے یہ سوال پیش کیا: "کیا وجہ ہے کہ جنگ میں قتل ہونے والے فلسطینی بچوں پر اتنا واویلا مچاتے ہو لیکن قتل ہونے والے اسرائیلی بچوں اور ان 40 بچوں کا کوئی ذکر نہیں کرتے جن کے گلے کاٹ دیے گئے تھے؟" جب میں نے جواب میں سی این این کی رپورٹر سارا سیڈنر کی جانب سے یہ جھوٹی خبر چلانے پر آفیشل طور پر معذرت خواہی کرنے اور اسرائیل کے ہی چند اتحادی مغربی ممالک کے رہنماوں کا اس جعلی خبر پر ردعمل اسے بھیجا تو وہ چپ سادھنے کے علاوہ کچھ نہ کہہ سکا۔ کیا وجہ ہے کہ کچھ افراد اتنے واضح جھوٹ پر یقین کر لیتے ہیں؟
 
انہوں نے کیوں اس جھوٹ کی تردید پر مبنی متعدد خبریں نہیں دیکھیں؟ کیا اس کے سوال کے باطن میں اسرائیل کو مظلوم بنا کر ظاہر نہیں کیا گیا؟ اگر اس سوال کا جواب ہاں ہے تو کیا واقعی اسرائیل مظلوم ہے؟ میں نے حالیہ تحریر میں غزہ جنگ میں میڈیا کے کردار اور میدان جنگ کے حقائق کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ اس بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
1)۔ غزہ کے موجودہ حالات کا مختلف پہلووں سے جائزہ لیا جا سکتا ہے جبکہ یہ میڈیا ذرائع ہیں جو یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کون سا پہلو زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آئے اور کون سا پہلو نظرانداز کر دیا جائے یا اس میں تحریف ایجاد کر کے پیش کیا جائے۔ غزہ جنگ کے ابتدائی لمحات سے ہی صیہونی حکمرانوں نے عالمی میڈیا پر اپنی "مظلوم نمائی" کرنے اور مدمقابل کو "دیو صفت" ظاہر کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
 
اس مقصد کیلئے غاصب صیہونی رژیم  نے عالمی صیہونزم کے اختیار میں موجود عظیم میڈیا ذرائع کو بروئے کار لایا اور "جعلی خبروں" کی بنیاد پر "کہانیاں" بنا کر عالمی رائے عامہ کے انسانی جذبات حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ "حماس نے چالیس بچوں کے سر کاٹ دیے" یا "اسرائیلی بچوں کو جلا ڈالا" اور "ہمارے بچوں کو انتہائی قریب سے گولی مار دی گئی" وغیرہ ایسی ہی جعلی خبروں کی کچھ مثالیں ہیں جو اسی مقصد کیلئے گھڑی گئیں اور ایک دو دن تک اسرائیل کا مظلوم چہرہ پیش کرنے میں کچھ حد تک کامیاب بھی رہیں۔ اس کام کے دو بنیادی مقاصد تھے: ایک عالمی رائے عامہ خاص طور پر عالمی طاقتوں کو فلسطینیوں کے مقابلے میں اپنے ساتھ ملانا اور دوسرا ان مجرمانہ اقدامات کی توجیہہ پیش کرنا جو صیہونی رژیم عنقریب انجام دینے والی تھی۔
 
تاریخ کے دوران صیہونیوں نے عالمی رائے عامہ کی سطح پر دو مکمل طور پر متضاد اصولوں کے تحت اپنے کاموں کو آگے بڑھایا ہے۔ ایک "مظلوم نمائی" اور دوسرا "خوفزدہ کرنے کیلئے مجرمانہ اقدامات"۔ ہولوکاسٹ کا افسانہ مظلوم نمائی کیلئے گھڑا گیا جبکہ وسیع پیمانے پر قتل عام دوسروں پر دہشت اور خوف بٹھانے کیلئے انجام پاتا ہے۔ یہ بات بذات خود بھی قابل غور ہے کہ آیا مظلوم نمائی اور جرائم کی انجام دہی دو متضاد باتیں ہیں بھی سہی یا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بعض اوقات پیسہ، علم اور میڈیا کی مدد سے ناممکن کو ممکن بنایا جاتا ہے۔ لیکن حالیہ جنگ میں غزہ کے الاحلی اسپتال میں جو ہولناک جرم انجام پایا اور اس کے بعد صیہونی مخالف اچھے میڈیا نے اس کے بارے میں اچھی فعالیت کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں عالمی رائے عامہ مظلوم فلسطینی قوم کے حق میں پلٹ گئی اور صیہونیت اسی دن سے جنگ میں شکست کھا گئی۔
 
سوشل میڈیا جیسے انسٹاگرام، یوٹیوب وغیرہ بھی جو صیہونیوں کا ساتھ دینے میں مصروف تھے دنیا بھر میں سرگرم صارفین کا مقابلہ نہ کر پائے اور یوں عالمی رائے عامہ مکمل طور پر صیہونیوں کے ہاتھ سے نکل گئی۔ مسئلہ اتنا سنگین ہو گیا کہ صیہونی وزیر خارجہ الی کوہن نے اعلان کر دیا کہ اسرائیل کے پاس دو ہفتے سے زیادہ وقت نہیں ہے اور اگر اس مدت میں مطلوبہ اہداف حاصل نہ ہوئے تو عالمی رائے عامہ ہمارے لئے شدید مشکلات پیدا کر دے گی جبکہ سفارتی کھڑکی بھی بند ہو جائے گی۔ مغربی ممالک سمیت دنیا بھر میں منعقد ہونے والے عظیم مظاہروں کو دیکھ کر ہی فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ تفسیروں کی جنگ میں فاتح کون ہے۔
2)۔ میدان جنگ میں بھی فلسطینیوں نے بہت اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور ہمیں صیہونی ذرائع ابلاغ کی نفسیاتی جنگ کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔
 
فلسطینی جوانوں نے امریکی اور صیہونی جرنیلوں کو بھی اس جنگ میں قتل کیا ہے۔ گذشتہ 18 دن کی زمینی جنگ میں صیہونیوں کا واحد کمال نہتے فلسطینی شہریوں، خواتین اور بچوں کا قتل عام رہا ہے۔ انہوں نے اسکولوں اور اسپتالوں کو جارحیت کا نشانہ بنایا ہے۔ امریکی تھنک ٹینک انٹرنیشنل اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز اس بارے میں لکھتا ہے: "اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ جنگ اسرائیلی تاریخ کی پہلی جنگ ثابت ہو جس میں اسرائیلی فوج نے جنگ میں حصہ لیا اور شکست کھائی۔۔۔ یہ شکست اسرائیل کیلئے تباہ کن اور امریکہ کیلئے حد درجہ نقصان دہ ثابت ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے چشم پوشی اختیار نہیں کرنی چاہئے۔۔۔" کچھ دن پہلے تھامس فریڈمین نے نیویارک ٹائمز میں لکھا: "واضح بات کرتا ہوں میرے لئے پوری طرح عیاں ہے کہ اسرائیل اس وقت ایسے حقیقی خطرے کا شکار ہے جو 1948ء سمیت ہر وقت سے زیادہ شدید ہے۔"


خبر کا کوڈ: 1095907

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1095907/غزہ-جنگ-میں-میڈیا-کا-کردار

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com