ایرانی صدر کا بائیڈن کو جواب
22 Sep 2023 08:16
اسلام ٹائمز: صدر ایران کے بقول یہ امریکہ کی خصوصیت ہے کہ وہ ’’بحران پیدا کرنیوالا‘‘ اور بحران میں جینے کی کوشش کرتا ہے۔ گویا اسکی بقاء بحرانوں سے متصل ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے تجزیہ کار نے یوکرین اور دنیا کے دیگر حصوں میں امریکہ کی حالیہ جنگ پسندی کے پس پردہ واقعات کی طرف اشارہ کیا اور تاکید کی کہ امریکی نئے عالمی نظام کے قیام کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو مختلف گروہوں اور ممالک کی قیادت میں تشکیل پا رہا ہے۔ مشرق میں، یوکرین جیسی پراکسی جنگیں اور مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام پیدا کرکے امریکہ اپنے مذموم عزائم حاصل کرنے کا خواہاں ہے، لیکن نئے عالمی نظام کو نہیں روکا جاسکتا۔
ترتیب و تنظیم: علی واحدی
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار "سید مصطفیٰ خوشچشم" نے IRNA کے ساتھ گفتگو میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکی صدر کی تقریر کے مواد کے حوالے سے کہا ہے کہ بائیڈن کے الفاظ، چاہے یوکرین کی جنگ کے بارے میں ہوں یا ایران کے بارے میں، گھسے پٹے اور تکراری تھے۔ خوشچشم کے مطابق امریکی صدر نے یوکرین جنگ کو روکنے یا تہران کے ایٹمی ہتھیاروں کے بارے جو کچھ کہا، وہی ماضی کی اور تکراری باتیں تھیں۔ ان کے بقول، بائیڈن نے انسانی حقوق کا مسئلہ اس وجہ سے اٹھانے کی کوشش کی کہ قیدیوں کے تبادلے کے شعبے میں ایران کو زیادہ مراعات دینے کی وجہ سے وہ اندرونی گروہوں کے دباؤ میں ہیں۔ بین الاقوامی مسائل کے اس ماہر نے کہا کہ بائیڈن نے انسانی حقوق کے مسئلے کو اٹھا کر اپنے خلاف اٹھنے والی تنقیدوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔ لہذا اس تناظر میں بھی بائیڈن نے کوئی نیا نکتہ نہیں اٹھایا۔
خوش چشم نے مزید کہا کہ دوسری طرف جنرل اسمبلی میں ایران کے صدر کے الفاظ جامع تھے، جس کے کئی محور تھے، جن میں سے ہر ایک پر تجزیہ اور تشریح کی جاسکتی ہے۔ اس سے ان کی تقریر کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ایران کے صدر کی تقریر کا ایک حصہ اسلامو فوبیا کے میدان میں دنیا کی موجودہ صورتحال پر مختص تھا کہا: اس حقیقت کے باوجود کہ مغرب نے اسلامی تہذیب کی بنیاد کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے اور اس سلسلے میں مغرب قرآن کو جلانے تک پہنچ گیا ہے، لیکن ایران اور عالم اسلام، دوسرے لفظوں میں، پوری مشرقی دنیا تیزی سے ابھر رہی ہے اور وہ دنیا کی پہلی طاقت بننے کے راستے پر گامزن ہے۔
اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ موجودہ حالات میں مغرب کے بعد کے نظام یعنی نئے نظام کی تشکیل سے کوئی انکار نہیں کرتا۔ بین الاقوامی مسائل کے اس ماہر نے مزید کہا: نہ صرف مغرب کی طاقت میں کمی آرہی ہے بلکہ ہم امریکہ کی قیادت میں مغربی نظام سے عبور کرچکے ہیں۔ وہ نظام جو کئی سالوں سے دنیا پر اپنا حکم چلا رہا تھا۔ نئے نظام میں روس، چین، ہندوستان، ایران اور کئی دوسرے ممالک شامل ہیں، جو مختلف اتحادوں جیسے "شنگھائی" اور "برکس وغیرہ میں شامل ہیں، جو مستقبل میں " فیصلہ کن کردار کے حامل ہیں، خاص طور پر ایران جو مغربی ایشیا کے خطہ میں استحکام کا بنیادی عنصر ہے، جو شہید حاج قاسم سلیمانی کی قیادت میں وجود میں آیا اور اس کا ذکر صدر ایران نے اپنی تقریر میں بھی کیا۔
خوش چشم نے صدر کی تقریر کے ایک اہم حصے کی طرف اشارہ کیا، جو معیشت اور معاش سے متعلق تھا اور کہا: "درحقیقت خارجہ پالیسی کے میدان میں صدر رئیسی کی حکومت کی پالیسی اور ترجیح بیرونی تجارت، راہداری ڈپلومیسی میں اضافہ کرنا اور ہمسایوں کے ساتھ تعلقات بڑھا کر تجارتی تعلقات کو فروغ دینا تھا۔ تعلقات کا استحکام اور علاقائی سلامتی کا مقصد تجارتی تعلقات کو بڑھانا تھا، تاکہ اس راستے سے مزید کارخانے چلیں اور ملکی برآمدات بڑھیں۔ اس لیے اس شعبے کی بھی بہت اہمیت تھی، جس کا صدر ایران نے ذکر کیا۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: "صدر ایران نے اپنے خطاب کے آخر میں بائیڈن کے بیانات کے جوابات دیئے اور ایک بار پھر اس حقیقت کو ظاہر کیا کہ گذشتہ سال اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ہائبرڈ جنگ شروع کرنے کے باوجود دشمن کامیاب نہیں ہوئے۔
صدر ایران کے بقول یہ امریکہ کی خصوصیت ہے کہ وہ ’’بحران پیدا کرنے والا‘‘ اور بحران میں جینے کی کوشش کرتا ہے۔ گویا اس کی بقاء بحرانوں سے متصل ہے۔بین الاقوامی تعلقات کے تجزیہ کار نے یوکرین اور دنیا کے دیگر حصوں میں امریکہ کی حالیہ جنگ پسندی کے پس پردہ واقعات کی طرف اشارہ کیا اور تاکید کی کہ امریکی نئے عالمی نظام کے قیام کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو مختلف گروہوں اور ممالک کی قیادت میں تشکیل پا رہا ہے۔ مشرق میں، یوکرین جیسی پراکسی جنگیں اور مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام پیدا کرکے امریکہ اپنے مذموم عزائم حاصل کرنے کا خواہاں ہے، لیکن نئے عالمی نظام کو نہیں روکا جاسکتا۔
خبر کا کوڈ: 1083123