یمن کے جنوبی علاقوں میں فوجی موجودگی بڑھانے کے امریکی اہداف
18 Sep 2023 22:28
اسلام ٹائمز: ماضی کے تجربات ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ ہمیشہ اسرائیلی مفادات کی عینک سے مشرق وسطی خطے کو دیکھتا ہے اور ہمیشہ اسرائیلی مفادات اس کی نظر میں پہلی ترجیح قرار پاتے ہیں۔ اسرائیل یمن کے قریب واقع اسٹریٹجک جزائر سقطری میں فوجی اڈے بنانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس کا مقصد ایک طرف اپنی سکیورٹی بڑھانا ہے جبکہ دوسری طرف اس خطے کو مخالفین کیلئے خطرناک خطے میں تبدیل کرنا ہے۔ لہذا یمن کے جنوبی علاقوں میں امریکہ کی جانب سے فوجی موجودگی بڑھانے کا ایک مقصد اسرائیل کو مدد فراہم کرنا ہے۔ امریکہ اس علاقے میں اسرائیلی مفادات کا تحفظ کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف یمن اور سعودی عرب میں امن مذاکرات اہم مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں جبکہ امریکہ یمن کے خلاف جاری جنگ کا خاتمہ نہیں چاہتا۔ یوں اس علاقے میں امریکہ کی فوجی موجودگی کا ایک مقصد امن مذاکرات میں رکاوٹ ڈالنا بھی ہو سکتا ہے۔
تحریر: احمد کاظم زادہ
امریکہ نے ایک عرصے سے یمن کے ساحلی علاقوں کے قریب فوجی موجودگی برقرار کر رکھی ہے لیکن گذشتہ چند ماہ سے اس میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یمن میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم انصاراللہ کے سیاسی رہنما العزی راجح نے ملک کے جنوبی صوبوں تعز، حضرموت اور چند دیگر علاقوں میں امریکہ کی فوجی موجودگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس کا حقیقی مقصد یمن میں موجود تیل کے قدرتی ذخائر پر کنٹرول بیان کیا ہے۔ انہوں نے کہا: "سمندر کے راستے آنے والی امریکی فورسز امریکی فوجی اڈوں میں تعینات کی جاتی ہیں جن کا مقصد عبد ربہ منصور ہادی حکومت سے گٹھ جوڑ کے ذریعے یمن کا تیل چوری کرنا ہے۔" یاد رہے تیل کے قدرتی ذخائر سے مالا مال علاقوں میں امریکہ کی فوجی موجودگی صرف یمن تک محدود نہیں بلکہ امریکہ نے شام کے تیل والے علاقوں میں بھی اپنی فوجیں تعینات کر رکھی ہیں۔
یمن اور شام کے تیل سے مالا مال علاقوں میں فوجیں تعینات کر کے امریکہ ایک ہی وقت دو بین الاقوامی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ پہلا جرم مقامی حکومتوں کی اجازت کے بغیر بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غیرقانونی طور پر فوجی اڈے قائم کرنا ہے جبکہ دوسرا جرم ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حق خود ارادیت اور ملکی سلامتی کو بالائے طاق رکھ کر اس کے قدرتی ذخائر سے تیل چوری کرنا ہے۔ یہ قدرتی ذخائر اور وہاں موجود تیل کی دولت درحقیقت اس ملک کے عوام کی ملکیت ہے جسے ان کی ضروریات پورا کرنے کیلئے استعمال ہونا چاہئے لیکن امریکہ ناجائز قبضے کے بعد ان قدرتی ذخائر کی لوٹ مار میں مصروف ہے۔ یمن اور شام میں عوام کی بڑی تعداد بنیادی ترین سہولیات سے محروم ہے جبکہ امریکہ ان ممالک کا تیل لوٹ کر اپنی فوجی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کیلئے استعمال کرتا ہے۔
امریکہ میں برسراقتدار آنے والی نئی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ مغربی ایشیا خطے میں فوجی موجودگی کم کر کے چین کا مقابلہ کرنے کیلئے مشرقی ایشیا میں فوجی سرگرمیاں بڑھائے گی۔ لیکن گذشتہ چند ماہ کے دوران امریکہ نے مغربی ایشیا خطے میں فوجی موجودگی میں اضافہ کر دیا ہے اور اس کی فوجی سرگرمیوں میں بھی تیزی آئی ہے۔ ان میں سے ایک یمن کے جنوبی علاقے ہیں۔ یمن کے ساحلی علاقوں میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی فوجی سرگرمیاں تشویش کا باعث بنتی جا رہی ہیں۔ چین نے مشرقی ایشیا میں امریکہ کی فوجی سرگرمیاں شروع ہونے سے پہلے ہی فوری اقدامات انجام دیے اور مشرق وسطی خطے میں اپنی اقتصادی اور تجارتی سرگرمیاں بڑھانا شروع کر دیں۔ اس وقت چین نے مشرق وسطی کے کئی ممالک میں ون بیلٹ اور سلک روڈ منصوبے کا آغاز کر رکھا ہے اور وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری بھی انجام دی ہے۔
چین نے حتی خطے میں امریکہ کے اہم اتحادی سعودی عرب سے بھی اقتصادی شعبے میں بہت قریبی تعاون جاری کیا ہوا ہے۔ چین اور سعودی عرب کے درمیان اربوں ڈالر کے معاہدے طے ہو چکے ہیں۔ لہذا یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ کی جانب سے مشرق وسطی خطے میں اپنی فوجی موجودگی دوبارہ بڑھانے کا مقصد اس خطے میں چین کے بڑھتے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنا ہے۔ امریکہ مشرق وسطی خطے کے ممالک اور چین کے درمیان اقتصادی معاہدے انجام پانے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنا چاہتا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال حال ہی میں جی 20 سربراہی اجلاس میں امریکہ کی جانب سے ایک نئی راہداری تشکیل دینے کا منصوبہ پیش کرنا ہے۔ یہ راہداری انڈیا کے ساحلی شہر ممبئی سے شروع ہو کر خلیجی ریاستوں سے گزرتی ہوئی یورپ تک پہنچنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
امریکہ کی جانب سے بحیرہ احمر میں فوجی موجودگی میں اضافہ کرنے اور یمن کے جنوبی علاقوں میں فوجی اڈہ قائم کرنے کا ایک مقصد خطے میں چین کی اقتصادی سرگرمیوں کو روکنا ہو سکتا ہے۔ عالمی اور علاقائی سطح پر جاری تعلقات میں یمن کی جیوپولیٹیکل، جیواسٹریٹجک اور جیواکونومیکل اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ یمن ایک منفرد جغرافیائی پوزیشن کا حامل ملک ہے جس کے باعث اسے خلیج فارس اور بحر ہند سے گزرنے والی تمام کشتیوں تک رسائی اور کنٹرول حاصل ہے۔ درحقیقت یمن ایشیا اور مشرق وسطی میں داخل ہونے کا دروازہ ہے۔ دنیا میں ایسے 14 اسٹریٹجک نکات پائے جاتے ہیں جو بہت اہم تصور کئے جاتے ہیں اور ان میں سے 7 نکات مشرق وسطی میں واقع ہیں۔ یہ نکات آبنائے بوسفر، آبنائے داردانل، کینال سویز، آبنائے جبل الطارق، آبنائے باب المندب، تنب بزرگ، تنب کوچک، آبنائے ہرمز اور جزیرہ ابوموسی ہیں۔
ماضی کے تجربات ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ ہمیشہ اسرائیلی مفادات کی عینک سے مشرق وسطی خطے کو دیکھتا ہے اور ہمیشہ اسرائیلی مفادات اس کی نظر میں پہلی ترجیح قرار پاتے ہیں۔ اسرائیل یمن کے قریب واقع اسٹریٹجک جزائر سقطری میں فوجی اڈے بنانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس کا مقصد ایک طرف اپنی سکیورٹی بڑھانا ہے جبکہ دوسری طرف اس خطے کو مخالفین کیلئے خطرناک خطے میں تبدیل کرنا ہے۔ لہذا یمن کے جنوبی علاقوں میں امریکہ کی جانب سے فوجی موجودگی بڑھانے کا ایک مقصد اسرائیل کو مدد فراہم کرنا ہے۔ امریکہ اس علاقے میں اسرائیلی مفادات کا تحفظ کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف یمن اور سعودی عرب میں امن مذاکرات اہم مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں جبکہ امریکہ یمن کے خلاف جاری جنگ کا خاتمہ نہیں چاہتا۔ یوں اس علاقے میں امریکہ کی فوجی موجودگی کا ایک مقصد امن مذاکرات میں رکاوٹ ڈالنا بھی ہو سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ: 1082440